انعام کی رات
حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: یُغفر لہم فی اٰخر لیلۃ من رمضان۔ قیل: یا رسول اللہ، أہی لیلۃ القدر۔ قال: لا، ولکنّ العاملَ إنّما یُوفی أجرہ إذا قضیٰ عملہ (مسند احمد، جلد 2، صفحہ 292) یعنی رمضان کی آخری رات میں روزے دار بندوں اور بندیوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا اِس رات سے مراد شبِ قدر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ عمل کرنے والا جب عمل کرتا ہے، تو عمل کے پورا ہونے کے بعداُس کو اُس کاپورا اجر دے دیا جاتا ہے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کے وہ افراد جو روزے کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں، مہینے کی آخری رات میں ان کے عمل کا پورا اجر ان کے ریکارڈ میں لکھ دیا جاتاہے۔ رمضان کے مہینے کی اِس آخری رات کو دوسری حدیث میں ’لیلۃ الجائزۃ‘ (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی انعام کی رات۔ ہر نیک عمل پر اللہ اپنے بندوں کو انعام دیتا ہے۔ رمضان کی عبادت کی اہمیت کی بناپر اس حدیث میں اس کے انعام کا ذکر خصوصی انداز میں کیا گیا۔
عام طورپر ایسا ہوتاہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے، تو عید سے پہلے کی رات کو لوگ غفلت میں یا تماشے میں گزارتے ہیں۔ وہ اس میں شاپنگ کی دھوم مچاتے ہیں۔ یہ حدیث اِس قسم کی غفلت کے لیے ایک انتباہ (warning) کی حیثیت رکھتی ہے۔انعام کی اِس رات کا بہتر استعمال یہ ہے کہ اُس رات کو زیادہ سے زیادہ دعا اور عبادت میں گزارا جائے، اور پورے مہینے کا محاسبہ کیا جائے، اور نئے سال کی دوبارہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اِس رات کو مسرفانہ شاپنگ جیسی چیزوں میں گزارنا، اِس بابرکت موقع کا ضیاع بھی ہے اور اُس کی ناقدری بھی۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ رمضان کے مہینے کو اُس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ گزاریں، وہ کبھی اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ رمضان کی آخری رات کو وہ غفلت اور تماشے میں گزار دیں۔ ان کے لیے مہینے کی آخری رات دعا اور عبادت کی رات ہوگی، نہ کہ غفلت کی رات۔