روزہ: ایک زندہ عمل

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن نَسِیَ وہو صائم فأکل أو شرب، فلیُتِمَّ صومَہ۔ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أکلُ النّاسی) یعنی جو شخص روزہ رکھے اور وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے، کیوں کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو کھلایا اور پلایا۔

روزہ اگر خالص قانونی نوعیت کی چیز ہو تو بظاہر ایسا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں ہو اور دن کے اوقات میں کبھی وہ بھول کر کچھ کھالے یا پی لے، تو اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے۔ روزہ اگر صرف ایک ظاہری صورت کا نام ہو تودن کے وقت کچھ کھانے یا پینے سے ہر حال میں اس کا روزہ ٹوٹ جانا چاہیے، خواہ اس نے جان کر کھایا ہو، یا بھول کر کھایا ہو۔ قانونی نوعیت کی چیزوں کے بارے میں مشہور مقولہ ہے کہ— قانون سے بے خبری کسی کے لیے عذر نہیں :

Ignorance of law has no excuse.

پھر کیا وجہ ہے کہ حدیث میں یہ بتایا گیاہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ روزہ کوئی ٹکنکل نوعیت کا قانونی فعل نہیں، روزہ ایک زندہ انسان کا عمل ہے۔ زندہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُس سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً اس کے اندر ایک نئی سوچ جاگ اٹھتی ہے۔ یہ نئی سوچ اس کی بھول کو ایک مثبت عمل بنا دیتی ہے۔ وہ اِس بھول میں اپنے عجز اور خدا کی قدرت کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ انسان کتنا زیادہ کم زور ہے، اُس کے مقابلے میں خدا کتنا زیادہ قوی اور عزیز ہے کہ وہ کبھی کسی چیز کو نہیں بھولتا (لایضلُّ ربّی ولا ینسیٰ)۔ یہ دریافت ایک زندہ انسان کو خدا سے اور زیادہ قریب کردیتی ہے۔ وہ مزید اضافے کے ساتھ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے—جو غلطی، معرفت میں اضافے کا سبب بن جائے، وہ غلطی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندہ ربانی تجربہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom