روزہ دارانہ زندگی
ایک فارسی شاعر نے روزہ اور رمضان کے بارے میں اپنے تجربات کو اِن الفاظ میں بیان کیاہے— روزے کا مقصد لوگوں کے اندر ریاضت کا مزاجپیدا کرنا تھا، مگر رمضان آیا تو ریاضت کے بجائے، لوگوں کے یہاں کھانے پینے کی دھوم میں اور اضافہ ہوگیا:
تن پروریِ خَلق فُزوں شد، نہ ریاضت جُز گرمی ٔ افطار، نہ دارد رمضاں ہیچ
رمضان کے مہینے میں یہ منظر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے، مشرق اور مغرب اور عرب اورعجم کے درمیان اس معاملے میں کوئی فرق نہیں۔ ہر جگہ رمضان کا مہینہ کھانے پینے کی مزید سرگرمیوں کا مہینہ بن گیا ہے۔ایسا کیوں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ صرف اُن لوگوں کے لیے روزے کا مہینہ بنتا ہے جو سال بھر روزہ دارانہ زندگی (Roza-oriented life)گزار رہے ہوں۔ جو لوگ سال کے بقیہ مہینوں میں غیر روزہ داربنے ہوئے ہوں، ان کے درمیان جب، رمضان کا مہینہ آئے گا تووہ اُسی کلچر میں اضافے کا سبب بنے گا جس کلچر میں وہ اس سے پہلے زندگی گزار رہے تھے۔
آج کل لوگوں کی زندگی کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ— خوب کماؤ اور اچھے اچھے کھانے کھاؤ۔ یہی تقریباً تمام لوگوں کی سوچ ہے اور یہی عملی طورپر لوگوں کا کلچر ہے۔ اسی قسم کی زندگی کے وہ پوری طرح عادی بنے ہوئے ہیں، وہ اس کے سوا زندگی کے کسی اور پیٹرن کو جانتے ہی نہیں۔ ایسی حالت میں جب ان کے درمیان رمضان کا مہینہ آتا ہے تو وہ ان کے کھانے پینے کے کلچر کی ایک توسیع کے ہم معنی ہوتا ہے۔ رمضان ان کے اُسی ذوق میں مزید اضافہ کردیتا ہے جس کے وہ اب تک عادی بنے ہوئے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتاہے تو وہ ان کے لیے صرف افطار اور سحری کی دھوم کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔ رمضان کا مہینہ اس لیے آتا ہے، تاکہ لوگوں کے اندر سادگی اور قناعت کا مزاج پیداہو۔ لوگوں کا اشتغال انسانوں کے درمیان کم ہو، اور اللہ کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ ہوجائے، مگر عملاً یہ سب نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ سال بھر روزہ دارانہ زندگی گزاریں، وہی رمضان کے مہینے میں سچے روزے دار بنیں گے۔