روزہ کا تعلق پوری زندگی سے
رمضان کے مہینے کا روزہ کسی قسم کی سالانہ رسم (annual custom) نہیں، وہ ایک زندہ تخلیقی (creative)عمل ہے۔ روزے کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ روزے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بن جائے۔
روزے کی اصل حقیقت خواہشات (desires) پر روک لگانا ہے۔ اسی کو حدیث میں یَدَع شہوتَہ (خواہش کو چھوڑنا) بتایا گیا ہے۔ پیاس ایک خواہش ہے، بھوک ایک خواہش ہے، نیند ایک خواہش ہے،معمول کے مطابق زندگی گزارنا ایک خواہش ہے۔ روزے کے مہینوں میں ان سب خواہشوں پر قانوناً روک لگائی جاتی ہے،تاکہ آدمی اسی طرح اپنی دوسری خواہشوں پر ارادتاً روک لگائے۔ وہ خود اپنے فیصلے کے تحت ایک پابند زندگی گزارنے لگے۔
انسان کی زندگی میں جتنے بھی اعمال ہیں، ان سب میں ففٹی ففٹی کا تناسب ہے، یعنی ففٹی پرسنٹ کسی چیز سے رکنا ہے، اور اس کا ففٹی پرسنٹ کسی چیز پرعمل کرنا۔ اسلامی شریعت میں إلاّ اللّٰہسے پہلے لا إلٰہ آتاہے۔ منفی اور ایجابی پہلو کا یہی تناسب تمام دینی اعمال میں پایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی تمام خواہشات پر بریک لگائے، تاکہ وہ اِس دنیا میں اپنے آپ کو مطلوب اعمال پر قائم کرسکے۔
تمثیل کی زبان میں کہاجائے تو روزے کی حیثیت انسانی زندگی میں انجن میں لگے ہوئے بریک (brake) جیسی ہے۔ بریک گاڑی کے انجن کو قابو میں رکھتا ہے،اسی لیے گاڑی درست طورپر اپنا سفر طے کرتی ہے۔ اگر کسی انجن میں بریک نہ ہو تو انجن درست طورپر کام نہیں کرے گا۔
یہی معاملہ مومن کی زندگی میں روزے کا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ روزے کو اپنی زندگی میں بریک کا مقام دے، تاکہ وہ خدا کے راستے پر درست طورپر اپنا سفر طے کرسکے۔اُسی آدمی کا روزہ حقیقی روزہ ہے جس کا روزہ اس کے لیے ممنوعاتِ خداوندی کے مقابلے میں بریک کے ہم معنی بن جائے۔