روزہ کی عظمت

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کے بارے میں فرمایا: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالھا إلی سبع مأۃ ضعف، قال اﷲ تعالیٰ: إلا الصوم، فإنہ لی وأنا أجزی بہ، یدع شہوتہ وطعامہ من أجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند فطرہ، و فرحۃ عند لقاء ربہ، و لخُلوف فم الصائم أطیب عند اﷲ من ریح المسک، والصیام جُنۃ، و إذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفُث و لایصخَب، فإن سابّہ أحد أو قاتلہ فلیقل: إنی امرؤ صائم (صحیح مسلم، کتاب الصّیام، باب: فضل الصیام)۔

انسان کے ہر عمل کی نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مگر روزہ، پس وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میرے لئے اپنی شہوت کو اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس کے افطارکے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ بد گوئی کرے اور نہ جھگڑا کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔

یہ روایت صحیحین میں اور حدیث کی دوسری کتابوں میں آئی ہے۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ روزہ اللہ کے لئے ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا جواب قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے (البقرۃ: 185)۔ اس کے مطابق، نزول قرآن کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ لوگ خصوصی تربیت کے ذریعہ اپنے آپ کو تیار کریں کہ وہ قرآن کے حامل اور مبلغ بن سکیں۔

قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ایسے انسان درکار ہیں جو اپنی ذات کے لئے جینے والے نہ ہوں، بلکہ وہ تمام تر اللہ کے لیے جینے والے ہوں۔ جن میں یہ حوصلہ ہو کہ وہ ایک ربانی مشن کے لئے اپنی خواہشات پرر وک لگادیں۔ جو پر رونق زندگی کے بجائے خشک زندگی پر راضی ہوجائیں۔ جن کے اندر یہ برداشت ہو کہ وہ لوگوں کی منفی باتوں کا بھی مثبت جواب دے سکیں۔ جو شعوری اعتبار سے اتنا بلند ہوں کہ لوگوں کی مخالفتیں ان کو قرآنی مشن سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

قرآن کے پیغام ہدایت کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانا خالص اللہ کا کام ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی دنیوی فائدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کو صرف اپنا کام قرار دیا اور اس پر خصوصی انعام کا اعلان فرمایا۔

جو لوگ قرآن کا علم حاصل کریں، وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کریں، وہ قرآن کے پیغام کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بنانے میں اپنی ساری کوشش صرف کر ڈالیں، جو یک طرفہ طورپر اس ذمہ داری کو قبول کریں کہ انھیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرنا ہے، تا کہ اللہ کا پیغام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو سکے، حتی کہ اس مقصد کے لیے وہ بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے لیے راضی ہو جائیں ـــایسے لوگ اللہ کے خاص بندے ہیں، وہ اس کے مستحق ہیں کہ اللہ اُن پر اپنی خصوصی نوازشوں کی بارش کرے۔

روزے دار کا اللہ کے لیے اپنی خواہشوں کو چھوڑنا یہ ہے کہ وہ ذاتی کامیابی کے بجائے اللہ کے دعوتی مشن کو اپنا مقصد بنائے۔ وہ خدا کی کتاب کے نزول کے مہینہ میں خصوصی تربیتی کورس کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرے کہ وہ خدا کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائے گا۔ وہ قرآن کی دعوت وتبلیغ کو اپنی زندگی کا مشن بنائے گا، نہ کہ ذاتی مفاد کے حصول کو۔ اس کی زندگی کا مرکز و محور قرآن ہوگا اور صرف قرآن۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom