صبر کا مہینہ
حضرت سلمان فارسی کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ— شعبان کے مہنیے کے آخری دن، رسول اللہ ﷺنے ہم کو خطاب فرمایا۔ یہ ایک تفصیلی حدیث ہے۔ اس کے کچھ حصے یہ ہیں : یا أیہا الناس، قد أظلّکم شہرٌ عظیمٌ، شہرٌ مبارکٌ، شہرٌ فیہ لیلۃٌ خیر من ألف شہر، جعل اللہ صیامہ فریضۃً وقیام لیلہ تطوّعا… ہو شہر الصبر، والصبرثوابُہ الجنّۃ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، جلد2، صفحہ 305) یعنی اے لوگو، ایک عظیم مہینہ تمھارے اوپر سایہ فگن ہورہا ہے۔ یہ ایک بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ نے اِس مہینے کے روزے کو فرض قرار دیا ہے اور اِس مہینے کی رات می ں قیام کو تطوع قرار دیا ہے…رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔
’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے— مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔ سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔
جو عمل صبر کی قیمت پر کیا جائے، وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی عمل ہوتاہے۔ عام حالات میں انسان جو عمل کرتا ہے، اُس میں اُس کی شخصیت کا صرف جزئی حصہ شامل ہوتا ہے۔ لیکن جس عمل کو انجام دینے کے لیے صبر کرنا پڑے، اُس میں آدمی کی پوری شخصیت فعّال (active)طورپر شامل ہوجاتی ہے۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ عام عمل کے مقابلے میں، صابرانہ عمل کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس بنا پر اُس کی جزا بھی۔ رمضان کو پانے والا وہ ہے جس کے لیے رمضان کا مہینہ حقیقی معنوں میں صابرانہ زندگی کی تیاری کا مہینہ بن جائے، ایسی صابرانہ زندگی جو پورے سال کے لیے آدمی کو صبر کے راستے پر قائم رکھنے والی بن جائے۔