رحمتِ الٰہی کا مستحق کون

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا دخل شہرُ رمضان فُتحت أبواب السماء۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الجنّۃ، وغُلّقت أبواب جہنّم، وسُلسِلت الشیاطین۔ وفی روایۃ: فُتحت أبواب الرحمۃ (صحیح البخاری، کتاب الصّوم، باب: ہل یُقال رمضان) یعنی جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو قید کردیا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

اِس حدیث میں جنت اور جہنم، یا شیاطین کی نسبت سے جو بات کہی گئی ہے،وہ دراصل تمثیل کی زبان (symbolic language) میں ہے۔ کلام کا اصل مقصود وہی ہے جس کو ’فتحت أبواب الرحمۃ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی رحمت کے دروازوں کا کھل جانا، یا رحمتِ خداوندی کے حصول کے مواقع میں اضافہ ہوجانا۔

رمضان کے مہینے کے یہ فوائد جو اِس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں، وہ پُراسرار طورپر خود بخود مل جانے والے فوائد نہیں ہیں، بلکہ وہ پوری طرح معلوم فوائد ہیں۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں اگر اس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھا جائے، تو ایسا روزہ آدمی کے لیے اُن فوائد کے حصول کا سبب بن جاتا ہے، جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں کیا گیا، یعنی ر وزے دار کے اندر اُن صفات کا پیدا ہونا جو اس کو خدا کی رحمت کا مستحق بنادیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ صرف فارم کے اعتبار سے روزہ رکھیں، اُن کا روزہ اُس حدیثِ رسول کا مصداق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ— کچھ روزے دار وہ ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ اور نہیں ملتا (کم من صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلا الجوع والعطش۔النسائی، ابن ماجہ

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom