نیت کی اہمیت
حضرت حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یُجمعِ الصیامَ قبلَ الفجر فلاصیامَ لہ (التّرمذی، کتاب الصوم، باب: لا صیامَ لمن لم یعزم) یعنی جس شخص نے طلوعِ فجر سے پہلے، روزہ رکھنے کا پختہ عزم نہیں کیا، اس کا روزہ نہیں۔
اِس حدیثِ رسول سے روزے کے عمل میں نیت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ روزے کا وقت شروع ہونے سے پہلے آدمی کو چاہیے کہ وہ شعوری طورپر اپنے اندر یہ ارادہ پیدا کرے کہ میرا آنے والا دن روزے کا دن ہوگا۔ گویا کہ باقاعدہ ارادے کے بغیر صرف بھوکا رہ جانے کا نام روزہ نہیں۔
دوسرے شرعی اعمال کی طرح، روزہ ایک باشعور دینی عمل ہے، یعنی ایک ایسا عمل جس کو آدمی زندہ شعور کے ساتھ انجام دے۔ عمل کے دوران وہ اُسی کے لیے سوچے، وہ اُسی کی کیفیات میں جیے، وہ اُن ربانی احساسات کو اپنے اوپر طاری کرے جو روزے کے دنوں میں ایک مومن سے خدا کو مطلوب ہیں۔ گویا کہ اس کا روزہ صرف جسمانی روزہ نہ ہو، بلکہ اُس کا شعور اور اس کے جذبات بھی اُس کے عمل کی روح کی حیثیت سے اس میں شامل ہوگئے ہوں۔
ایک سچا مومن جب زندہ نیت کے ساتھ اپنے روزے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کی سوچ بھی اُسی رخ پر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ روزے کے بارے میں سوچتا ہے۔ بھوک اور پیاس کے تجربات کے دوران وہ اعلیٰ روحانی حقیقتوں کا تجربہ کرتا رہتا ہے۔ جب وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، یا نماز ادا کرتا ہے، تو اس کی روزہ دارانہ زندگی اس کی تلاوت اور اس کی نماز میں ایک نئی روح پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ روزے کی حالت میں دن گزارنا اور قیام کی حالت میں رات گزارنا، اس کے لیے خدا سے خصوصی قربت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حقیقی روزہ وہ ہے جو آدمی کی پوری زندگی کو روزہ رخی زندگی (Roza-oriented life) بنادے۔