ایمان اور احتساب
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صام رمضان إیماناً واحتساباً، غُفِر لہ ما تقدم من ذنبہ، ومن قام رمضان إیماناً واحتساباً غُفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ ومن قام لیلۃَ الْقدر إیمانًا واحتسابًا غُفر لہ ما تقدم من ذنبہ(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من صام رمضان) یعنی جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیامِ لیل کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اور جس نے شب ِ قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
اِس حدیث میں رمضان کی تین عبادتوں کا ذکر ہے۔ تینوں کے ساتھ حدیث میں ’ایمان‘ اور ’احتساب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایمان سے مراد اللہ پر عارفانہ یقین ہے۔ اور احتساب (anticipation of God’s reward)سے مراد خالص رضائِ الہی کے حصول اور طلب اجر کی نیت سے عمل کرنا ہے(طلب الأجر من اللہ تعالیٰ، لا لقصد اٰخر من ریاء أو نحوہ)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ روزہ اور دوسری عبادات کو صرف اس کے ظاہری فارم (form) کے اعتبار سے نہ کرنا، بلکہ اس کی سچی روح (spirit) کے ساتھ اس کو انجام دینا۔
ایمان اور احتساب کے ساتھ ادا کیا جانے والا یہ روزہ اور عبادت وہ ہے جس میں بندہ گویا کہ آنسوؤں سے وضو کرتا ہے، جس میں بھوک کا مطلب یہ ہوتا ہے، گویا کہ آدمی نے اپنے اور اللہ کے درمیان سے ہر دوسری چیز کو ہٹا دیا ہے، جس میں رکوع اور سجدہ خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ کرنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے، جس میں انسان الہامی الفاظ میں دعا کرنے لگتا ہے— جو شخص اِن اعلیٰ ربانی کیفیات کے ساتھ روزہ اور عبادت کا تجربہ کرے، وہی وہ انسان ہے جو رمضان کے مہینے سے اِس طرح نکلتا ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں۔