فارم اور اسپرٹ کا فرق
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں رمضان کے مہینے میں روزے کا حکم ایک پورے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اِس میں روزے کے بارے میں دو قسم کی رخصتوں کا ذکر ہے۔ ایک رخصت (concession) مستقل رخصت ہے جو اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وعلی الذین یطیقونہ فدیۃٌ طعامُ مسکین (البقرۃ: 184) یعنی جو لوگ اُسے مشکل ہی سے برداشت کرسکیں، اُن کے ذمّے فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا (ترجمہ: مولانا عبد الماجد دریابادی)۔ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی عذرِ شرعی کی بنیاد پر مستقل طورپر روزہ رکھنے کے قابل نہ رہیں، ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں یہ رخصت ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھیں اور روزہ کے بجائے اُس کے کفارہ کے طورپر اُس کا فدیہ ادا کریں۔
رخصت کی دوسری صورت، قرآن میں اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ومَن کان مریضاً أو علی سفرٍ فعدّۃٌ من أیامٍ اُخر (البقرۃ: 185) یعنی جو کوئی بیمار ہو، یا سفر میں ہو تو اُس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دنوں میں۔ یہ عارضی رخصت کا معاملہ ہے، یعنی آدمی روزہ رکھنے کے قابل ہواور وقتی طورپر اُس کو عذرِ شرعی لاحق ہو جائے، تو وہ عذر کے بقدرروزہ چھوڑ دے اور رمضان کے بعد اپنے چھوٹے ہوئے روزے کو دوبارہ پورا کرلے۔
اِن دو رخصتوں کے بیان کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العُسر، ولتکملوا العدّۃ ولتکبّروا اللّٰہ علی ما ہداکم، ولعلّکم تشکرون (البقرۃ:185) یعنی اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے، وہ تم پر دشواری نہیں چاہتا، اور چاہتا ہے کہ تم تعداد پوری کرو اور تاکہ تم بڑائی کرو اللہ کی، اِس بات پرکہ اُس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم اُس کا شکر ادا کرو۔
قرآن کی اِن آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی احکام کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو متعلقہ حکم کے فارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزے کا فارم یہ ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا، پینا اور دوسری ممنوعات کو ترک کردے۔ روزے کی اسپرٹ تکبیر اور شکر ہے، یعنی آدمی کے اندر اللہ کی کبریائی کا احساس طاری ہونا، اور اللہ کے انعامات پر گہرے شکر کا جذبہ پیدا ہونا۔
مذکورہ آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں فارم اور اسپرٹ کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اِس فرق کو مذکورہ آیت میں ’عُسر‘ اور ’یُسر‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اگر روزے کے فارم کو مطلق حیثیت دے کر، اُس کو ہر حال میں لازم کردیا جائے تو یہ اہلِ ایمان کے لیے عُسر (دشواری) کا باعث ہوجائے گا، اِس لیے فارم کے معاملے میں عسر کے بجائے، یُسر (آسانی) کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، یعنی رخصت کا طریقہ۔
مگر جہاں تک دینی احکام کے دوسرے پہلو، یعنی اسپرٹ کا معاملہ ہے، اُس میں کسی قسم کی رخصت نہیں، اسپرٹ کا پہلو ہر حال میں اور مطلق طورپر اہلِ ایمان سے مطلوب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب فارم کی ادائیگی میں عُسر (دشواری) کی صورت پیدا ہوئے جائے، تو اُس وقت شریعت کا تقاضا ہوگا کہ فارم کے معاملے میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے، تاکہ اسپرٹ کا پہلو کسی نَقص کے بغیر مسلسل طورپر باقی رہے۔
روزے میں بھوک، پیاس کا تعلق فارم سے ہے، اس لیے اُس میں رخصت کا طریقہ اختیار کیاگیا۔ اِس کے مقابلے میں، تکبیرِ رب اور شکر الٰہی کا تعلق، روزے کی اسپرٹ سے ہے، اِس لیے اس کو مطلق حیثیت دے کر مسلسل طورپر باقی رکھا گیا ہے۔
یہ اسلامی شریعت کا ایک اہم اصول ہے۔ اِس اصول کا تعلق، صرف روزے سے نہیں، بلکہ دوسرے تمام دینی معاملات سے بھی ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ کسی دینی حکم کی ادائیگی میں عُسر کا مسئلہ پیدا ہوجائے تو اُس وقت متعلقہ حکم کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، تاکہ متعلقہ حکم سے جو اسپرٹ مطلوب ہے، وہ اسپرٹ کسی قسم کے خلل کے بغیر پوری طرح باقی رہے۔
یہ شریعت کا ایک تخلیقی اصول (creative principle) ہے۔ یہ اصول اِس بات کا ضامن ہے کہ شریعت کی اصل روح مسلسل طورپر اہلِ ایمان کے درمیان باقی رہے، اور اُس میں کسی بھی حال میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔