حلال سے روزہ، حرام سے اِفطار

حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا اور دونوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ نے فرمایا: إنّہما لم یصوما، وکیف صام مَن ظلَّ ہذا الیوم یأکل لُحومَ الناس۔یعنی اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا۔ بھلااُس کاروزہ کیسے ہوگا جو روزہ رکھے اور غیبت کرکے لوگوں کا گوشت کھائے۔ ایک اور روایت میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : إن ہاتَین صامتا عمّا أحلّ اللہ لہما وأفطرَتا علی ما حرّم اللّٰہ علیہما (مجمع الزوائد، کتاب الصیام، باب الغیبۃ للصائم) یعنی انھوں نے اُس چیز سے روزہ رکھا جو اللہ نے اُن کے لیے حلال کیا تھا، اور پھر انھوں نے اُس چیز سے افطار کرلیا جواللہ نے اُن کے لیے حرام کیا تھا۔

اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے میں صرف یہ حرام نہیں ہے کہ آدمی دن کے اوقات میں کھانا کھالے اور پانی پی لے، اِس کے سوا بھی کچھ چیزیں حرام ہیں اور وہ روزے کو باطل کرنے والی ہیں۔ مثلاً دوسروں کی برائی بیان کرنا۔جو آدمی روزہ رکھے اور کھانے پینے کی چیزوں سے بچا رہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کی برائی بیان کرے، تو اُس کا روزہ مطلوب روزہ نہ ہوگا، اُس کا روزہ صرف بھوکا اور پیاسا رہنے کے ہم معنی ہوگا۔

روزہ توڑنے کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھتے ہوئے جان بوجھ کر مادّی ممنوعات پر عمل کرنے کا ارتکاب کرے، مثلاً وہ کھانا کھالے، یا پانی پی لے۔ اِسی طرح، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ ممنوعات ہیں، مثلاً دوسروں کی بُرائی اور غیبت کرنا۔ اگر آدمی روزہ رکھ کر روحانی اور اخلاقی ممنوعات کا ارتکاب کرے، تو ایسے ارتکاب سے بھی اس کا روزہ باطل ہوجائے گا، بظاہر روزہ رکھ کر بھی وہ روزے کے ثواب سے محروم رہے گا۔روزہ غذائی پرہیزگاری کا نام بھی ہے، اور اخلاقی پرہیزگاری کا نام بھی۔ روزے میں اخلاقی پرہیزبھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح غذائی پرہیز۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom