مسائلِ رمضان
مسائلِ رمضان سے مراد، رمضان یا روزے کے فقہی یا قانونی مسائل ہیں۔ اِن مسائل کا چرچا ہر مسجد اور ہر مدرسے میں ہوتا ہے، اِس بنا پر لوگ عام طورپر روزہ اور رمضان کے فقہی مسائل سے واقف ہوتے ہیں۔ اِسی واقفیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ ہر سال رمضان کے مہینے میں آسانی کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اُس کے ضروری احکام کی پابندی کرتے ہیں۔ اِس لیے اِن مسائل کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ یہاں اس کے کچھ بنیادی پہلوؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
روزے کا وقت طلوعِ فجر سے شروع ہوتا ہے اورغروبِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ روزہ ہر بالغ عورت اور مرد پر فرض ہے، الا یہ کہ اُس کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو جس کو شریعت میں معتبر ماناگیا ہو۔ روزے کا آغاز نیت سے ہوتا ہے۔ یہ نیت آدمی کو طلوعِ فجر سے پہلے، یا سحری کھانے کے وقت کرناچاہیے۔
رمضان کے مہینے میں اگر کوئی شخص سفر کرے، یا بیمار ہوجائے تو وہ رخصت کے طورپر اُن دنوں میں روزہ ترک کرسکتا ہے۔ لیکن اُس کو رمضان کے بعد چھوٹے ہوئے دنوں کے بقدر روزہ رکھ کر اس کی تکمیل کرنی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص بڑھاپے، یا کسی طبّی سبب سے مستقل طورپر معذور ہوجائے اور روزہ رکھنا اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو وہ روزہ ترک کردے اور کفارہ کے طورپر مساکین کو کھانا کھلادے، یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا۔
شریعت، آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزے میں دن کے اوقات میں کھانے پینے اور دیگر ممنوعات کے باوجود، رات کے اوقات میں اُس کی اجازت، سحری اور افطار کا وقتجاننے کے لیے کیلنڈر کا پابند کرنے کے بجائے، عام مشاہدے کو بنیاد قرار دینا، اِسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں وہ اُس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی اسپرٹ کے مطابق ہے۔