لامحدود اجر
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃُ بعشر أمثالہا إلی سبع مأۃ ضِعْف، قال اللہ تعالی: إلاّ الصوم، فإنہ لی وأنا أَجزی بہ، یَدَع شہوتہ وطعامَہ من أجلی (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام) یعنی انسان کے ہر عمل کا اجر، دس گُنا سے لے کر سات سوگنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: سوائے روزہ کے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش کو اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔
انسان جب کوئی صالح عمل کرتا ہے، تو اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اُس کے عمل کا اجر اُس کو زیادہ بڑھا کر دیا جائے۔ عام حالات میں آدمی کے اجر میں یہ اضافہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہوتا ہے، لیکن روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اجر ایک سچے روزے دار کو بے حساب گنا اضافے کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
صالحعمل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، وہ جو نارمل حالت میں کیا جائے۔ مثلاً معمول کے مطابق، پانچ وقت کی نماز ادا کرنا، یا سال پورا ہونے پر اپنے مال میں سے زکات نکالنا۔ ذی الحجہ کا مہینہ آنے پر حج کی عبادت کو انجام دینا، وغیرہ۔ یہ عبادتیں وہ ہیں جو معمول کے حالات میں ادا کی جاتی ہیں۔ اِن پر بھی بلا شبہہ اجر ملتا ہے، لیکن ان کا اجر،اضافے کے باوجود، ایک محدود اجر ہوتا ہے، نہ کہ لامحدود اجر۔
عبادت کی دوسری قسم وہ ہے جو غیر معمولی حالات میں ادا کی جاتی ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس میں انسان کو ایک قسم کے بھونچال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جس میں آدمی کو خود اپنے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے، جس میں آدمی کو اپنی خواہشوں (desires)سے لڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے، یہ وہ عبادت ہے جو قربانی (sacrifice) کی سطح پر ادا کی جاتی ہے۔ پہلی قسم کی عبادت اگر ہموار راستے کا سفر ہے، تو دوسری قسم کی عبادت پہاڑ کی چڑھائی کے ہم معنیٰ۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر دوسری قسم کی عبادت کا اجر پہلی قسم کی عبادت کے مقابلے میں، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ایک، معمول کی عبادت ہے اور دوسری، غیر معمولی حالات میں کی ہوئی عبادت۔