ِختم قرآن، یا تدبّر ِقرآن
رمضان کے مہنیے میں ہر جگہ ختم قرآن کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ روزانہ تلاوت میں پڑھ کرقرآن کو ختم کرنا، تراویح میں قرآن کو ختم کرنا، وغیرہ۔ اِس کی آخری صورت وہ ہے جس کو ’شبینہ‘ کہاجاتا ہے، یعنی ایک رات میں تراویح کے دوران پورے قرآن کو ختم کرنا۔ اِس قسم کا ختم قرآن یقینی طورپر رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ صرف ایک بدعت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
حدیث سے ثابت ہے کہ بدعت کے ذریعے کبھی خیر کا ظہور نہیں ہوسکتا (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 105)۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیامیں رمضان کے مہینے میں قرآن کو ختم کرنے کی دھوم ہوتی ہے، لیکن کہیں بھی اِس قسم کا ختم قرآن، لوگوں کے اندر قرآنی اسپرٹ کو زندہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ قرآن کی سورہ نمبر 38 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدّبّروا اٰیاتہ ولیتذکر اولوا الألباب (صٓ: 29) یعنی قرآن ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اُس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اُس سے نصیحت حاصل کریں۔
اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد انسانی عقل کو ایڈریس کرنا ہے، تاکہ انسان سوچے اور وہ اُس کے گہرے معانیتک پہنچ سکے۔ اِس طرح کی آیتیں قرآن میں کثرت سے ہیں، لیکن سارے قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی موجود نہیں جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُس کے الفاظ کو دہرا کر اُس کو ختم کرتے رہو اور کم سے کم مدت میں قرآن کو ختم کرکے اُس کا جشن مناؤ۔
رمضان کا مہینہ، قرآن پر غور کرنے کا مہینہ ہے، نہ کہ اس کے الفاظ کو تیز رفتاری کے ساتھ دہرا کر اُس کو ختم کرنے کا مہینہ۔ قرآن، انسان کے لئے ایک ربانی غذا ہے، نہ کہ محض لسانی ورزش کا ذریعہ۔ یہ قرآن کی تصغیر (underestimation) ہے کہ اُس کو شبینہ جیسی خود ساختہ رسموں کا موضوع بنادیا جائے۔