روزہ :اسلام کا ایک رُکن
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمس: شہادۃِ أن لا إلٰہ إلاّ اللّٰہ وأن محمداً عبدُہ ورسولُہ، وإقام الصلاۃِ وإیتاء الزکاۃ والحجّ وصوم رمضان (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب: الإیمان) یعنی پانچ چیزیں اسلام کی بنیاد ہیں— اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکات ادا کرنا، اور حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔
اِس حدیث میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ پہلی چیز کلمۂ شہادت ہے جو اسلام کے اعتقادی رکن کی حیثیت رکھتاہے۔ دوسری چیز ہے، نماز کو قائم کرنا۔ تیسری چیز ہے، اپنے مال میں سے زکات دینا۔ چوتھی چیز ہے، حج ادا کرنا۔ اور پانچویں چیز ہے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔
اسلام کو اگر ایک عمارت سے تشبیہہدی جائے تو اِس عمارت کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔ اِن میں سے ایک روزہ ہے۔ روزے کی حقیقت صبر ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر صبر وتحمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ صبر اسلامی زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص اسلام پر قائم نہیں رہ سکتا— نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر، شیطان کے بہکاوے کے مقابلے میں صبر، لوگوں کی ایذاؤں کے مقابلے میں صبر، جان ومال کے نقصان کے مقابلے میں صبر، ناخوش گوار تجربات کے مقابلے میں صبر، محرومی کے واقعات پر صبر، مصیبتوں کے مقابلے میں صبر، وغیرہ۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔