دورِ ز وال کا ظاہرہ
حضرت ابو ذر غفاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تزال أمّتی بخیر ما عَجَّلُوا الإفطارَ وأخَّرُوا السَّحور(مسند احمد، جلد 5، صفحہ 147) یعنی میری امت کے لوگ اُس وقت تک خیر پر قائم رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے اور سحری میں تاخیر کریں گے۔
اِس حدیث میں خیر سے مراد دین کی روح (spirit) ہے۔ اِس حدیث کے مطابق، رمضان کے مہینے میں افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر اِس بات کی علامت ہے کہ امت خیر پر ہے، یعنی امت کے اندر دین کی حقیقی روح زندہ ہے۔ اور جب معاملہ اِس کے برعکس ہوجائے، یعنی لوگ افطار میں ’’احتیاطی تاخیر‘‘ کرنے لگیں، اور وہ سحری میں ’’احتیاطی تعجیل‘‘ کرنے لگیں، تو یہ اِس بات کی علامت ہوگی کہ امت کے اندر سے خیر نکل گیا ہے، یعنی امت دین کی روح (spirit) پر قائم نہیں ہے، بلکہ وہ صرف دین کی شکل (form) پر قائم ہے۔ اور اِس قسم کی حالت اللہ کے نزدیک مطلوب حالت نہیں۔ تعجیل یا تاخیر سے مراد تعجیل یا تاخیر نہیں ہے، بلکہ وقت کی ٹھیک ٹھیک پابندی ہے۔
افطار میں دیر کرنے کا مزاج کیوں ہوتا ہے، اور سحری میں جلدی کرنے کا مزاج کب پیدا ہوتا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں روحِ دین باقی نہ رہے، وہ محض شکل کی بجاآوری کو دین سمجھنے لگیں۔ ’’احتیاط‘‘ کا ذہن ہمیشہ ظاہری صورت، یا فارم کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ ظاہری صورت کے اہتمام کو اہم چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ظاہری پہلو میں کمی اُن کے نزدیک، دین کو ناقص بناتی ہے، اور ظاہری پہلو میں اضافہ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دین کو کامل کرلیا۔ مذکورہ حدیث میں اِسی زوال یافتہ مزاج کی نشان دہی کی گئی ہے۔
زندہ دین داری، آدمی کو اسپرٹ کانشس (spirit-conscious) بناتی ہے، اورجب زندہ دین داری باقی نہ رہے، تو لوگ فارم کانشس (form-conscious) بن جاتے ہیں۔ اِ س حقیقت کا تعلق، صرف روزے سے نہیں ہے، بلکہ تمام دینی اعمال سے ہے۔