قولِ زُور، عملِ زُور
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن لم یَدعْ قولَ الزّور والعملَ بہ، فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی أن یَدَعَ طعامَہ وشرابَہ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: من لم یدع قول الزور والعمل بہ) یعنی جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اِس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑ دے۔
روزہ بظاہر مخصوص اوقات میں کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام ہے، مگر کھانے اور پینے کا یہ ترک ایک علامتی ترک (symbolic abstinence)ہے۔ روزہ کے مہینے میں چند چیزوں کو چھوڑ کر روزے دار اپنے آپ کو اِس مقصد کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کی منع کی ہوئی تمام چیزوں کو چھوڑ دے۔ گویا کہ ترکِ طعام اگر جسمانی روزہ ہے تو ترکِ مَنہیَّات، روحانی روزہ۔ جس آدمی کی زندگی میں ترکِ طعام ہو، لیکن اس کی زندگی میں ترکِ منہیات نہ ہو، تو اس کا روزہ خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ پانے والا نہیں۔
دین میں دو قسم کی تعلیمات شامل ہیں۔ ایک، وہ جن میں کسی چیز کے کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور دوسرے، وہ جن میں کسی چیز کے چھوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔ روزہ ترکِ منہیات والی تعلیمات کے لیے تربیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزہ کے مہینے میں وقتی طورپر کچھ چیزوں کے ترک کا حکم دے کر یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اِسی طرح پورے سال دوسری تمام منہیات کو ترک کردینا ہے، اِس کے بغیر دین کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
اِن منہیّات (prohibitions) میں سے ایک چیز وہ ہے جس کو حدیث میں، جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا کہاگیا ہے۔ جھوٹ بولنا یہ ہے کہ آدمی کسی چیز کے بارے میں خلافِ واقعہ بیان دے۔ مثلاً وہ رات کے وقت کو دن کا وقت بتائے۔ اِسی طرح، جھوٹ پر عمل کرنا یہ ہے کہ آدمی ایک غلط کام کرے اور وہ اس کو خلافِ واقعہ طورپر صحیح کانام دے۔ وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے لیے ایک کام کرے اور لوگوں کو بتائے کہ میں یہ کام خالص حق کے لیے کررہا ہوں۔ جو لوگ اِس طرح کے جھوٹ میں مبتلا ہوں، اُن کا روزہ خدا کے یہاں قابلِ رد قرار پائے گا، نہ کہ قابلِ قبول۔