روزہ کو چھوڑنا
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن أفطر یوماً من رمضان من غیر رُخصۃٍ ولا مَرَضٍ، لم یقضِ عنہ صومُ الدّہر کُلّہ وإن صامہ (التّرمذی،کتاب الصوم، باب الإفطار متعمّداً) یعنی جو شخص رمضان کے دنوں میں کسی دن روزہ ترک کردے، جب کہ اُس کے لیے کوئی شرعی عذر اور بیماری نہ ہو، تو اس کے بعد خواہ وہ ساری عمر روزے رکھے، وہ اس کے لیے رمضان میں چھوڑے ہوئے روزے کا بدل نہیں ہوسکتا۔
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی اہمیت یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اُس کا حکم دیا ہے۔ ایسی حالت میں رمضان کے کسی ایک روزے کو بھی قصداً چھوڑنااپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کے بعد آدمی اگر ساری عمر روزہ رکھے، تو وہ اس کے اپنے فیصلے کے تحت ہوگا، نہ کہ براہِ راست حکمِ خداوندی کی تعمیل میں۔ اور بلاشبہہ کوئی بھی دوسرا عمل، خدا کے حکم کی قصداً خلاف ورزی کی تلافی نہیں بن سکتا۔
اِس دنیا میں پانی کا جو ذخیرہ ہے، اس کی ایک ایک بوند کا مالک خداہے۔ اِس دنیا میں مختلف قسم کی جو غذائیں ہیں، ان کا غیر مشترک مالک بھی صرف ایک خدا ہے۔ اِس قسم کی تمام چیزیں جو دنیا میں موجود ہیں، ان کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور یہ بھی خدا وند ِ ذوالجلال ہی ہے جو یہ تمام چیزیں انسان کو عطا کرتا ہے۔
ایسی حالت میں جب خدا خودیہ حکم دے کہ فلاں مہینے کے دنوں میں تم میرا پانی اور میری پیداکی ہوئی غذائیں استعمال نہیں کروگے، تو یہ انسان کی انسانیت کے سر تا سر خلاف ہے کہ وہ رزق کے خالق و مالک کی ممانعت کے باوجود اس کے دیے ہوئے رزق کا ایک دانہ بھی استعمال کرے۔ حکمِ خداوندی کی ایسی خلاف ورزی کے بعد انسان اپنے آپ کو اِس دنیا میں بے جگہ بنالیتا ہے۔ اِس کے بعد وہ انسان کی سطح سے گر کر غیر انسان کی سطح پر آجاتا ہے۔