عبادت کا اظہار
حضرت نُفیع بن حارث ابوبکرہ الثقفی سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یقولنّ أحدکم إنّی صُمتُ رمضان کُلّّہ، وقمتہ کلّہ (سنن أبی داؤد، کتاب الصّوم) یعنی تم میں سے کو ئی شخص ہر گز یہ نہ کہے کہ میں نے ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھے، اور میں نے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا۔ اِس حدیث کو بیان کرنے کے بعد راوی نے کہا: لا أدری، أَخَشِی التزکیۃَ علیٰ أمتہ، أوقال: لا بُدّ مِن نومٍ أو غفلۃ (مسند احمد، جلد5، صفحہ 48) یعنی میں نہیں جانتا کہ آپ نے ایسا اپنی امت پراُس کے اظہارِتزکیہ کرنے کے خوف سے کہا، یا نیند یا غفلت کے خوف سے۔
اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رمضان میں تمام روزے رکھنا آدمی کے لیے ضروری نہیں ہے، یا قیامِ لیل ضروری نہیں۔ اِس حدیث میں فوکس حقیقتاً خود صیام اور قیام پر نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سامنے اپنے صیام اور قیام کا اظہار کرنے پر ہے۔ عبادت کے بارے میں اِس قسم کا اظہار، اخلاص کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔آدمی جب خداوند ِ ذوالجلال کی عبادت کرتا ہے تو اس کے اندر عجز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عظمتِ خداوندی کے احساس کی بنا پر اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کایہ احساس پورے معنوں میں حقیقی ہوتا ہے، نہ کہ مصنوعی۔
ایک آدمی اگر لوگوں کے سامنے یہ کہے کہ— الحمد للہ میرے تمام روزے پورے ہوئے، ماشاء اللہ میں نے رمضان کی تمام راتوں میں قیام کیا، تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ کہنے والے نے عبادت کو صرف اس کے فارم کی سطح پر پایا ہے، نہ کہ اسپرٹ کی سطح پر۔ عبادت کا فارم چوں کہ ایک معلوم چیز ہوتی ہے، اِس لیے اس کے فارم کے بارے میں ایسا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن عبادت کی روح ایک داخلی چیز ہے، اس کاحقیقی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اس لیے جس شخص نے عبادت کو اس کی اسپرٹ کی سطح پایا ہو، وہ ہمیشہ اپنی عبادت کے بارے میں اندیشے میں مبتلا رہے گا۔ اس کو یہ احساس ہوگا کہ معلوم نہیں، خدا کے نزدیک میری عبادت مطلوب عبادت تھی یا نہیں۔