روزہ: خدا کی یاد کا ذریعہ
قرآن کی سورہ نمبر 14 میں اللہ تعالی نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: واٰتاکم من کلّ ما سألتموہ (إبراہیم: 34) یعنی اللہ نے تم کو وہ سب کچھ دیا جس کا تم نے اُس سے سوال کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت اپنی تخلیق کے اعتبار سے جن جن چیزوں کی طالب تھی، وہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو کامل طورپر عطا کردیں۔
اب ایک مومن کا تصور کیجیے۔ روزہ کے مہینے میں اُس نے اپنا پورا دن بھوک، پیاس میں گزارا۔ اس کے بعد شام ہوئی اور افطار کا وقت آیا، تو اس کے سامنے کھانے اور پینے کی چیزیں رکھی گئیں، اُن کو دیکھ کر مومن کو قرآن کی مذکورہ آیت یاد آئی۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے کہا کہ—خدایا، تو نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ تو نے انسان کو وہ سب کچھ دیا جس کا اس نے تجھ سے سوال کیا۔ یہ تیری رحمت کا اظہار ہے اور یقینا اِس رحمت میں انسانی فطرت کا کوئی سوال ایسا نہیں ہو سکتا جو پورا نہ ہوا ہو۔
خدایا، انسان کی فطرت نے پانی مانگا، تو نے اُس کو پانی عطا کیا۔ انسان کی فطرت نے کھانا مانگا، تونے اس کو کھانا عطاکیا۔ انسان کی فطرت نے ہوا او ر روشنی کا سوال کیا، تو نے اس کو ہوا اور روشنی عطا فرمائی۔ اِسی طرح، مادّی ضرورت کی تمام چیزیں تو نے انسان کو بھر پور طور پر عطا فرمائیں۔
خدایا، انسانی فطرت اپنی تخلیق کے اعتبار سے، اِسی طرح ایک اور چیز کی طالب ہے، اور وہ ہے تیری غیر مادّی رحمتیں۔ وہ یہ کہ انسان گناہ کرے اور تو اس کو معاف کردے۔ انسان سے کوتاہیاں سرزد ہوں اور تو اُن کی تلافی فرمائے۔ انسان صراطِ مستقیم سے بھٹک جائے اور تو اس کو دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم کردے۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے جنت کا مستحق نہ ہو، لیکن تو اس کو اپنی رحمتِ خاص سے جنت میں داخلہ عطافرمادے—یہ اللہ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ انسانی فطرت کی مادّی طلب کو پورا کرے اور وہ اس کی فطرت کی غیر مادّی طلب کو پورا کیے بغیر چھوڑ دے۔