روزہ اور دعا

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں اللہ تعالیٰ نے دعا کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: وإذا سألک عبادی عنّی فإنی قریب، أجیب دعوۃ الدّاع إذا دعانِ فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشد ون (البقرۃ: 186)۔ یعنی جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو میں نزدیک ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے۔ تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

دعا کسی قسم کے متعین الفاظ کو دہرانے کا نام نہیں، دعادراصل دل کی پکار کا نام ہے۔ جب کسی انسان کے دل میں اعلیٰ ربانی جذبات پیدا ہوں اور وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے، تو یہی وہ چیز ہے جس کو اسلام میں دعا کہاگیا ہے۔ اِس قسم کی دعا اُس انسان کے اندر سے نکلتی ہے جو دل شکستگی کے تجربے سے دوچار ہو۔ اور روزے کی مشقت آدمی کو اِسی دل شکستگی کا تجربہ کراتی ہے۔ اِس طرح، آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ مطلوب نوعیت کی سچی دعا کرسکے۔حقیقی دعا وہ ہے جس میں عجز کا تجربہ شامل ہوجائے۔

خدا، انسان کے بالکل قریب ہے۔ وہ ہر لمحہ انسان کے قریب رہتا ہے، لیکن اِس قربتِ الہٰی کاتجربہ صرف اُس انسان کو ہوتا ہے جو عاجزانہ روح کے ساتھ اللہ کو پکارے۔ حقیقی روزہ آدمی کو اِسی عجز اور عبدیت کا تجربہ کراتا ہے۔ اِس طرح، سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ خدا کی قربت کا تجربہ کرے، وہحقیقی معنوں میں خداسے دعا کرنے والا بن جائے۔

سچی دعا وہ ہے جس کے ساتھ سچا عمل شامل ہو۔ سچے عمل سے مراد مطابقِ دعا عمل ہے۔ سچی دعا اور سچے عمل کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جس آدمی کو خدا کی سچی قربت ملے، وہ یقینا ایک باعمل انسان بن جائے گا۔ اور باعمل انسان ہی وہ انسان ہے جس کی دعا اللہ تک پہنچتی ہے اور قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ جس دعا کے ساتھ مطابقِ دعا عمل شامل نہ ہو، وہ دعا قابلِ رد ہے، نہ کہ قابلِ قبول۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom