روزہ اور اعتکاف
رمضان کے مہینے میں، عام طورپر آخری عشرہ میں، مسجد کے اندر اعتکاف کیاجاتا ہے۔ جو لوگ اعتکاف کرتے ہیں، وہ اِن دنوں میں دوسرے تعلقات کو منقطع کرکے مسجد میں بیٹھ جاتے ہیں۔ناگزیر انسانی ضرورت کے سوا، وہ کسی اور مقصد سے باہر نہیں نکلتے۔ مسجد میں خلوت نشیں ہوکر، وہ اپنا زیادہ وقت عبادت اور ذکر اور دعا اور تلاوتِ قرآن میں گزارتے ہیں۔
اعتکاف کا لفظی مطلب— خلوت نشینی (seclusion) ہے۔ یہ اعتکاف کس لیے کیا جاتا ہے۔ حدیث میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں آیا ہے کہ: ہو یعتکف الذُّنوب (مشکاۃ المصابیح، رقم : 2108) یعنی وہ گناہوں سے اعتکاف کرتا ہے۔ گناہوں سے اعتکاف کرنے کا مطلب کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے محدث ناصر الدین الالبانی (وفات : 1999) نے لکھا ہے کہ : أی یحتبس عن الذّنُوب (مشکاۃ، جلد 1، صفحہ 650) یعنی وہ اپنے آپ کو گناہوں سے روک لیتا ہے۔ اعتکاف کا مطلب سادہ طور پر صرف گناہ سے رکنا نہیں ہے، بلکہ روزے کی اسپرٹ کو بھر پور طورپر اپنانے کے لیے اپنے آپ کو خلوت نشیں بنا لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اعتکاف کا مطلب ہے— اپنے آپ کو مواقعِ گناہ سے ہٹا کر پوری طرح عملِ خیر میں مشغول کرلینا۔
اِس پر غور کرتے ہوئے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اعتکاف کا اصل مقصد اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا ہے۔ گناہ خود بھی ایک قسم کا ڈسٹریکشن ہے۔ فطرت کی صراطِ مستقیم سے ہٹنا، آدمی کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اعتکاف ایک خصوصی تدبیر ہے جس کے ذریعہ آدمی چند دنوں کے لیے مجبوری کی حالت پیدا کرکے اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچاتا ہے، تاکہ وہ بعد کے دنوں میں اختیارانہ طورپر اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچا کر صراطِ مستقیم پر قائم رہنے والا انسان بناسکے۔
ترک واختیار کایہ معاملہ پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر، کوئی شخص اپنی زندگی کو اسلامی زندگی نہیں بنا سکتا۔ روزے کے ذریعے آدمی کے اندر یہی اسپرٹ پیدا کرنا مقصود ہے۔
اعتکاف بظاہر اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے خاص کرنے کا نام ہے۔ لیکن اسلام میں عبادت اور رَہبانیت (Monasticism) میں فرق کیا گیاہے۔ اسلام کے مطابق،رہبانیت ایک قسم کا غلو ہے اور غلو اسلام میں جائز نہیں (لاغلو فی الإسلام)۔ایک صحابی ٔ رسول کا حسب ذیل واقعہ اِس معاملے میں شریعت کی صحیح روح کو بتاتا ہے:
طَبرانی اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بنِ عباس کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ روایت کے مطابق، حضرت عبد اللہ بن عباس، مدینہ کی مسجد ِ نبوی میں اعتکاف کی حالت میں تھے۔ اُن کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: تم مجھ کو افسردہ اور غمگین دکھائی دیتے ہو۔ اُس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول کے چچا زاد بھائی، میرے اوپر فلاں شخص کا حق ہے، اور اِس صاحبِ قبر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی عزت کی قسم، میں اُس کی ادائیگی پر قادر نہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: کیا میں تمھارے بارے میں اُس آدمی سے بات کروں (أفلا أکلّمہ فیک)۔ اُس شخص نے کہا: ہاں، اگر آپ پسند فرمائیں۔ اِس کے بعد عبد اللہ بن عباس نے اپنے جوتے پہنے اور مسجد سے باہر نکل کر روانہ ہوگئے۔ اُس آدمی نے کہا: شاید آپ بھول گئے کہ آپ اِس وقت حالتِ اعتکاف میں ہیں۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا: نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے (اور یہ کہتے ہوئے عبداللہ بن عباس کی آنکھوں میں آنسو آگئے) کہ: مَن مشیٰ فی حاجۃِ أخیہ وبلغ فیہا، کان خیراً لہ من اعتکاف عشْرِ سنین (الترغیب، والترہیب، کتاب الصوم، جلد 2، صفحہ 96) یعنی جو شخص اپنے بھائی کی حاجت براری کے لیے چلا اور اُس نے اُس کے لیے کوشش کی، تو یہ اُس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس کے اِس واقعے سے اسلامی عبادت ا ور اعتکاف کی روح معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بوقتِ ضرورت عبادت کے فارم میں ایڈجسٹ مینٹ کیا جائے گا، لیکن عبادت کی روح کو ہر حال میں باقی رکھا جائے گا۔