روزہ اور اخلاقی ڈسپلن
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا کان یومُ صومِ أحدکم فلا یرفُث، ولا یَصخَب، فإن سابَّہ أحدٌ أوقاتلہ فلیقل: إنّی امرئٌ صائم(البخاری، کتاب الصوم) یعنی جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئی نہ کرے اورنہ شور کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اُس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں ایک روزے دار آدمی ہوں۔
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ صرف کھانا اور پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی بُرے اخلاق کوچھوڑ دے، وہ کسی معاملے میں شور و غل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرا شخص اُس کو اشتعال دلائے، تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ وہ مشتعل ہو کر خود بھی وہی کرنے لگے جو دوسرا شخص اس کے خلاف کررہا ہے۔
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا مقصد آدمی کے اندر گہری اسپرٹ پیدا کرنا ہے، ایسی اسپرٹ جو اس کی سوچ کو بدل دے، جو اس کے مزاج میں تبدیلی پیداکردے، جو اس کے کردار میں انقلاب برپاکردے۔ سچاروزے دار وہ ہے جس کا روزہ اس کی پوری شخصیت کو ربانی شخصیت بنادے۔
سچا روزہ انسان کو آخری حد تک ایک سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کے ہر پہلو میں سنجیدگی کا رنگ غالب آجاتاہے۔ اس کا یہ مزاج اتنا گہرا ہوتا ہے کہ دوسروں کا اشتعال انگیز رویّہ بھی اس کو سنجیدگی کے راستے سے نہیں ہٹاتا۔ وہ سماج کا ایک پُر سکون ممبر (peaceful member)ہوتا ہے، وہ سماج میں لوگوں کے لیے کسی طرح کا کوئی پرابلم کھڑا کرنے کا سبب نہیں بنتا۔ سچا روزے دار ایک متواضع (modest)انسان ہوتا ہے، نہ کہ سرکش انسان۔سچا روزے دار اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کو تو چھوڑے، لیکن وہ بُرے اخلاق کو نہ چھوڑے۔ وہ کھانے پینے کے معاملے میں اپنے معمول کو بدلے، لیکن وہ اپنی زندگی کی روش میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔