عید الفطر کا دن
رمضان اور روزہ اور عید الفطر کے بارے میں حضرت انس بن مالک سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ اُس روایت کا ایک حصہ یہ ہے:
…”فإذا کان یومُ عیدِہم، یعنی یومَ فِطرہم، باہیٰ بہم ملائکتَہ، فقال: ملائکتی، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَہ۔ قالوا: ربّنا، جزائُہ أن یُوفّیٰ أجرُہ۔ قال: ملائکتی، عبیدی وإمائی قضَوا فریضتی علیہم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتی وجَلالِی وکَرمی وعُلوّی وارْتفاعِ مکانی لأجیبنَّہم۔ فیقول: ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال: فیرجعون مغفوراً لہم۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، باب الصیام، فصل فی لیلۃ العید ویومہما)۔
یعنی جب عید کا دن آتا ہے، یعنی عید الفطر کا دن، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے روزے دار بندوں اور بندیوں پر فخر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: اے میرے فرشتو، اُس کی جزا کیا ہے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، اُس کی جزا یہ ہے کہ اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدلہ دے دیا جائے۔خدا کہتاہے کہ اے میرے فرشتو، میرے بندو ں اور میری بندیوں نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر عائد تھا، پھر وہ نکلے ہیں دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے ہوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم، میرے کرم، میرے عُلو ِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ضرور اُن کی پکار کو سنوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: تم لوگ واپس جاؤ، میں نے تم کو بخش دیا اور میں نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں تبدیل کر دیا۔ پس وہ لوگ اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔
رمضان کے خاتمے کے بعد عید الفطر کا دن ایک عظیم خوش خبری بن کر آتا ہے، ابدی انعام کی خوش خبری۔ یہ ابدی انعام اللہ کے اُن بندوں اور بندیوں کے لیے ہے جو رمضان کے مہینے میں مطلوب روزے کے ذریعے اپنے لیے اُس کا استحقاق ثابت کریں۔