اسپرٹ، یا ٹکنکل مسائل
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمع النّدائَ أحدُکم والإنائُ علیٰ یدہ، فلا یضعْہ حتی یقضی حاجتَہ منہ(مسند احمد، جلد5، صفحہ 431) یعنی تم میں سے جب کوئی (روزے دار) فجر کی اذان کی آواز سنے اور کھانے کا برتن اُس کے ہاتھ میں ہو، تو وہ اُس وقت تک اس کو اپنے منہ سے نہ ہٹائے، جب تک کہ وہ اپنی حاجت پوری نہ کرلے۔
اِس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص سحری کررہا ہے۔ ابھی وہ اپنی سحری پوری نہیں کرسکا تھا کہ اس کو فجر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو وہ ایسا نہ کرے کہ وہ فوراً کھانا یا پینا چھوڑ دے، بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ اپنی سحری کو پورا کرلے۔ اور پھر فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جائے۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کسی ٹکنکل (technical)عمل کانام نہیں ہے۔ روزے میں ٹکنکل مسائل کی حیثیت ثانوی (secondary) ہے۔ روزے میں اصل اہمیت اس کی روح یا اس کی اسپرٹ کی ہے۔ جس عمل میں روح پر زور دیا جائے، اُس میں ٹکنکل مسائل کا درجہ وہی ہوجائے گا جس کی ایک علامتی مثال مذکورہ حدیث میں نظر آتی ہے۔
روزہ جیسے زندہ عمل میں ٹکنکل مسائل پر زور دینا، ہمیشہ اِس قیمت پر ہوتا ہے کہ اس کی اسپرٹ کا پہلو مجروح ہوجائے۔ اِسی معاملے کو واضح کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بات ارشاد فرمائی۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمھارا سارا دھیان روزے کی اسپرٹ پر ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل پر۔ اسلامی عبادات میں سب سے زیادہ اُس کی اسپرٹ کی اہمیت ہوتی ہے، نہ کہ اس کے ٹکنکل مسائل کی۔روزہ اگر ٹکنکل نوعیت کا کوئی عمل ہوتا، تو اذان کی آواز سنتے ہی کھانے پینے کو فوراً چھوڑدینا لازم ہوجاتا۔مگر اِس معاملے میں رخصت دینے سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اس کی روح، اس کا اصل حصہ ہے اور اس کا فارم اس کا اضافی حصہ۔