بے روح عبادت
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کَم مِن صائمٍ لیس لہ من صیامہ إلاّ الظَّمَأ، وکم من قائمٍ لیس لہ من قیامہ إلا السَّہرَ (سنن الدّارمی، کتاب الصوم) یعنی بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے(بھوک اور)پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیامِ لیل کرنے والے وہ ہیں جن کو اپنے قیامِ لیل سے،جاگنے کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔
روزے میں ترکِ طعام،روزے کی ایک ظاہری صورت ہے۔ اِسی طرح، رمضان کی راتوں میں قیام کرنا اس کی ایک ظاہری صورت ہے، مگر ہر ظاہری صورت کے ساتھ ایک حقیقت شامل رہتی ہے۔ جس چیز کا حال یہ ہو کہ اُس میں اُس کی ظاہری صورت موجود ہو، لیکن اس کی داخلی حقیقت اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو ایسی چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کی مثال ایسے پھل کی ہے جس کا ظاہری چھلکا تو موجود ہو، لیکن اس کے اندر کا مغز ا س میں نہ پایا جاتا ہو۔
روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر خوفِ خدا کی صفت پیدا ہو، اس کے اندر تقویٰ کا شعور جاگے، ا س کے اندر اخلاقی ڈسپلن پایا جائے، وہ حقیقی معنوں میں اپنے خالق اور رازق کا شکر کرنے والا بن جائے۔ یہی روزے کا اصل مقصد ہے اور کسی کے روزے کو اِسی اعتبار سے جانچا جائے گا کہ اس کے اندر روزے کی یہ مطلوب صفات پیدا ہوئیں یا نہیں۔اِسی طرح، روزے کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مومن کو قرآن سے وابستہ کیا جائے۔ اِسی لیے روزے کے مہینے میں مختلف انداز سے، قرآن کا زیادہ سے زیادہ چرچا کیا جاتا ہے۔ سچا روزہ آدمی کے اندر گہرائی اور سنجیدگی پیدا کرتا ہے۔ اِس طرح کے ذہن کو لے کر آدمی جب قرآن کو سنتا ہے اور پڑھتا ہے تو وہ عام دنوں سے زیادہ، قرآن سے نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی کے روزے کو جانچنے کا اصل معیار ہیں۔جس آدمی کے روزے میں یہ داخلی کیفیات شامل نہ ہوں، اُس کا روزہ ایک بے روح روزہ ہے، نہ کہ حقیقی روزہ۔