حالتِ محرومی کی دریافت
حضرت ابو ذر غفاری سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے۔ یہ حدیث ِ قُدسی ہے۔ اس حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: یا عبادی، کلّکم جائعٌ إلاّ من أطعمتُہ، فاستطْعِمُونی أُطْعِمْکم (صحیح مسلم، کتاب البرّ، باب: تحریم الظلم) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندو، تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے، سوا اُس شخص کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھانا دوں گا۔
اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عین وہی بات ہے جو روزے سے مطلوب ہے۔ روزے کا مقصد آدمی کے اندر یہ زندہ شعور پیدا کرنا ہے کہ رزق کا دینے والا صرف خدا ہے، خدا اگر رزق نہ دے تو کہیں اور سے انسان کو رزق ملنے والا نہیں۔
روزے میں یہ ہوتاہے کہ آدمی صبح سے شام تک اپنے آپ کو کھانے سے دور رکھتاہے۔ اِس طرح، وہ اِس حقیقت کا تجربہ کرتا ہے کہ وہ خود رزق کا مالک نہیں۔ اِس کے بعد شام کو جب اس کے سامنے کھانا آتا ہے، تو وہ اس کو خدا کی طرف سے دیا ہوا رزق سمجھ کر کھاتا ہے۔ اُس وقت وہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ— خدایا، میں بھوکا تھا، تیرا شکر کہ تو نے مجھے کھانا دیا اور اِس طرح اپنی رحمتِ خاص سے میری محرومی کی تلافی کا انتظام فرمایا۔
رمضان کے مہینے میں دن کا وقت آدمی کو اُس کے محروم ہونے کا تجربہ کراتا ہے، اور رات کا وقت اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا تجربہ۔ اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ بظاہر یہاں ایک کے دینے سے دوسرے کو ملتا ہے۔ لیکن صاحبِ معرفت انسان وہ ہے جو اِس ظاہر سے اوپر اٹھ جائے، وہ بظاہر انسان کی طرف سے ملنے والی چیز کو خدا کی طرف ملنے والی چیز سمجھنے لگے۔ جو شخص اِس حالتِ احتیاج کو دریافت کرے، وہی وہ انسان ہے جس کو حقیقی روزہ ملا، اس کا روزہ اس کے لیے رحمتِ الٰہی کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن گیا۔