ظلم یا عصری تقاضا
آج کل لکھنے اور بولنے والوں کا عام انداز یہ ہوگیا ہے کہ وہ ہر بات کو ظلم کے انداز میں لیتے ہیں، وہ اپنی بات اس طرح کہتے ہیں، جیسے کہ مسلمان مظلوم ہیں، اور ساری دنیا ان کے لیے ظالم بن گئی ہے۔ یہ طریقہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پیش آرہاہے، وہ کسی ظالم کے ظلم کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ عصری تقاضے کا معاملہ ہے۔ عصری تقاضے کو نہ جاننے کی بنا پر وہ اس کو ظلم کا معاملہ بنا کر منفی زبان بولتے ہیں۔
مثلاً موجودہ زمانہ اظہارِ خیال کی آزادی (freedom of speech) کا زمانہ ہے۔ بین اقوامی اتفاق سے یہ مان لیا گیا ہے کہ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے خیال کا آزادانہ اظہار کرے۔ اس حق میں یہ شامل نہیں ہے کہ اس کی بات کسی کے جذبات کو مجروح کرنے والی نہ ہو۔ اس معاملے میں جو شرط ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ اس کی بات کے ساتھ تشدد (violence) شامل نہ ہو۔ مگر مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اس عصری تقاضے سے واقف نہیں۔ اس لیے جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ ایسی بات کر رہے ہیں، جو اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کے جذبات کو مجروح کرنے والا ہے، تو وہ بھڑک اٹھتا ہے، حتی کہ تشدد پر اتر آتا ہے۔
مسلمانوں کا یہ ردّ عمل عصری تقاضے کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اس زمانے میں قول کے مقابلے میں قول کا انھیں پوری طرح حق ہے، لیکن قول کے مقابلے میں تشدد کا ہرگز انھیں اختیار نہیں۔ اظہارِ خیال کی آزادی کسی ایک گروہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تمام گروہوں کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص اظہارِ خیال کی آزادی کو اپنے فکر کی اشاعت کےلیے استعمال کررہا ہے تو مسلمانوں کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے فکر کی اشاعت کے لیے اس آزادی کو استعمال کریں۔ مثلاً اگر دوسرا شخص اسلام کے خلاف کتاب چھاپ رہاہے تو مسلمانوں کو یہ حق ہےکہ وہ اس کے جواب میں اسلام کے موافق کتابیں تیار کرکے اس کو چھاپیں اور پھیلائیں۔ مگر ان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ كسي قول کا جواب متشدّدانہ ردِّعمل سے دیں۔