دین میں آسانی
قرآن (2:185) میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، وہ تمہارے ساتھ سختی کرنا نہیں چاہتا (يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)۔ دوسری جگہ ( 22:78) فرمایا کہ اللہ نے تمہارے اوپر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی(وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ)۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ (سنن النسائی، حدیث نمبر 5034)۔ یعنی یہ دین آسان ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارابہتر دین وہ ہے جو آسان ہو: إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ (مسنداحمد، حدیث نمبر 15936)۔ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ آسانی پیداکرو، لوگوں کومشکل میں نہ ڈالو(يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 69۔
اسی لیے فقہ میں شریعت کے بارے میں یہ اصولی مسئلہ وضع کیا گیا ہے کہ مشقت آسانی لاتی ہے۔ اس اصول پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔مثلاً حنفی عالم ابن نجیم(وفات 970ھ) نے اصول فقہ پر اپنی کتاب الا شباہ والنظائر میں ایک بحث کا عنوان یہ رکھا ہے— الْقَاعِدَةُ الرَّابِعَةُ: الْمَشَقَّةُ تَجْلُبُ التَّيْسِيرَ ( چوتھا قاعدہ : مشقت آسانی لاتی ہے)۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ دین بذات خود کوئی سہولتوں اور آسانیوں کامجموعہ ہے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ دین کے راستہ میں جب حالات کے تحت کوئی مشقت کی صورت پیدا ہوجائے تو وہاں لوگوں کومشقت میں نہیں ڈھکیلا جائے گا، بلکہ ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی اصول کے تحت بیماری میں وضو کے بجائے تیمم ہے ۔سخت بارش میں مسجد کے بجائے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ سفر میں روزہ چھوڑدینا ہے،وغیرہ۔
یہی اصول اجتماعی زندگی کے لیے بھی ہے۔ یعنی دین میں آسانی کایہ اصول صرف فرد کے لیے نہیں ہے، وہ جماعت اور قوم کے لیے بھی ہے۔ جس طرح انفرادی معاملات میں مشکل پیش آنے کی صورت میں فرد کے لیے شریعت کا حکم نرم کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جماعت کے لیے بھی سخت حالات میں شریعت اپنے تقاضے کو نرم کر دیتی ہے۔
مثلاً ًشریعت کا کوئی عمل جس کو اجتماعی صورت میں علی الاعلان کرنا مطلوب ہو۔ لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ ہائی پروفائل (high profile) میں کام کرنے سے نقصان کااندیشہ ہووہاں لوپروفائل (low profile) کواختیار کرنے کاحکم ہے۔
دینی مقصد کے لیے اقدام کرنا بجائے خود ثواب کا ایک عمل ہے۔ مگر جہاں ایسی صورت ِحال پیدا ہوجائے کہ اقدام کرناموت کی طرف چھلانگ لگانے کے ہم معنی ہووہاں شریعت کاحکم بدل جائے گا۔ اب اقدام کے بجائے اعراض اہل اسلام کے لیے شریعت کامطلوب عمل بن جائے گا۔
اسی طرح ایک معاشرہ ہے جہاں سیاسی اصلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن حالات بتا تے ہیں کہ اگر سیاسی تبدیلی کو نشانہ بناکر تحریک چلائی جائے تو ہلاکت کی صورت پیش آجائے گی تو ایسے معاشرہ میں لوگوں کو ہلاکت میں ڈالنے کے بجائے خود حکم کو بدل دیا جائے گا۔ اب وہاں یہ مطلوب ہوجائے گا کہ سیاسی انقلاب کے محاذ سے ہٹ کر انفراد ی اصلاح کے میدان میں پرامن کوششیں کی جائیں۔
اسی طرح ایک موقع جہاں اعلان واظہار ایک شرعی مطلوب نظر آتا ہے۔ مگراسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر لاؤڈاسپیکر کی پر شور تقریر کاطریقہ اختیا کیاجائے تو سماج میں اس کامنفی ردِعمل ہو گا اور اہل اسلام کے لیے شدید ترحالات پیداہوجائیں گے ۔تو ایسی حالت میں شور والا عمل ساقط ہوجائے گا، اور شریعت کا تقاضاہوجائے گا کہ خاموش تدبیر کاانداز اختیار کرکے اپنا مقصد حاصل کیاجائے۔اس کو فقہا نے بطور اصول ان الفاظ میں بیان کیا ہے: دَرْءُ الْمَفَاسِدِ أَوْلَى مِنْ جَلْبِ الْمَصَالِحِ(الموافقات للشاطبی ، جلد5، صفحہ 300)۔ یعنی نقصانات کو روکنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔
اس قسم کی باتوں کی طرف ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ و ہ اپنے آپ کو ذلیل کرے(لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ)۔ صحابہ نے پوچھا: کوئی شخص اپنے آپ کو کس طرح ذلیل کرتا ہے۔ آپ نے کہا:کسی ایسے مشکل کام میں وہ پڑجائے جس سے نمٹنے کی اس میں طاقت نہ ہو (يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ)سنن الترمذی،حدیث نمبر 2254 ۔
عُسرسے بچنا اور یُسر کاطریقہ اختیار کرنا یہ ہے کہ بوقت ِعمل یہ دیکھاجائے کہ موجودہ حالات میں کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں ہے ۔ اور پھر ممکن دائرہ میں اپنی قوتوں کو صرف کیا جائے، نہ کہ ناممکن دائرہ میں سرٹکرا کر مزید اپنے نقصان میں اضافہ کرلیاجائے۔