مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح

(حدیث نمبر 158-162)

158

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جس نے هدايت كي طرف بلايا، اس كو بھي اتنا هي اجر ملے گا جتنا ان لوگوں كو جنھوں نے اس كي پيروي كي۔اور اس سے ان لوگوں كے ثواب ميں ذرا بھي كمي نه هوگي۔ اور جس نے گمراهي كي طرف بلايا، اس پر بھي اتنا هي گناه هوگا جتنا كه ان لوگوں پر جنھوں نے اس كي پيروي كي۔ اور اس سے ان لوگوں كے گناه ميں كوئي كمي نه هوگي۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2674)

تشریح: آدمي اگر خود كوئي نقطهٔ نظر اختيار كرےتو ايسي حالت ميں اس كي ذمه داري صرف اس كي ذات تك محدود رهتي هے۔ ليكن جب وه اپنے نقطهٔ نظر كا اعلان عام كركے اس كودوسروں تك پهنچائے تو اس كي ذمه داري بهت زياده وسيع هوجاتي هے۔ اگر وه ايك صحيح نقطهٔ نظر كي اشاعت كررهاهے تو اس كے ذريعه جن لوگوں كي اصلاح هوگي ان سب كا ثواب اس كو بھي پهنچتا رهے گا۔اس كے برعكس، اگر وه غلط نقطهٔ نظر كي اشاعت كرے تو اس کے ذريعه جتنے لوگ گمراه هوں گے ان سب كي گمراهي بھي اس كے خانے ميں لكھي جاتي رهے گي۔ آدمي كو ذاتي زندگي ميں بھي محتاط هونا چاهیے۔ ليكن اگر وه دوسروں كو رهنمائي دينے كے لیے كھڑا هو تو اس كو مزيداضافے كے ساتھ محتاط هونا چاهیے۔ كيوں كه اب اس كي ذمه داري هزاروں گنا حد تك زياده هوچكي هے۔

159

ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: اسلام شروع هوا تو وه اجنبي تھااور پھر وه ويسا هي هوجائے گا جيسا كه وه شروع هوا۔ پس خوش خبري هےاجنبيوں كے لیے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر145)

تشریح: قديم عرب كے لوگ اپنے اكابر كے دين پر تھے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے جب ان كے سامنے دين خدا كو پيش كيا تو ان كو دين اكابر كے مقابلے ميں دين خدا اجنبي معلوم هوا۔ حديث كي پيشين گوئي كے مطابق، بعد كے زمانے ميں خود امت كےاندر بھي يهي صورت پيش آنے والي هے۔

 بگاڑ کے زمانہ میں ایسا ہوتا ہے کہ خدا و رسول والا دین گم ہو جاتا ہے اور دین کی دوسری دوسری شکلیں رائج ہو جاتی ہیں۔ مثلاً قومی دین ، برکت والا دین ، رسم و رواج والا دین ، آبائی فخر والا دین ، لوگ دین کی انھیں خود ساختہ شکلوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ايسي حالت ميں جب ان كے سامنے خالص خدائی دين  پيش كيا جاتا ہےتو يه دينِ خدا دوباره ان كو اسي طرح اجنبي معلوم هوتا ہے جس طرح وه قديم زمانے كے لوگوں كو اجنبي دكھائي ديتا تھا۔ چنانچہ وہ خدا اور سول والے دین کو اجنبی سمجھ کر اس کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔

اس دورِ اجنبيت ميں جو لوگ خالص دين خدا كو پهچانیں اور اس كا ساتھ ديں وه بهت خوش قسمت لوگ هيں۔ كيوں كه انھوں نے اس وقت معرفت كي سطح پر دين كو دريافت كيا جب كه دوسرے لوگ صرف رواج كي سطح پر دين كو پائے هوئے تھے۔

160

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ايمان مدينه كي طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل كي طرف سمٹ آتا هے۔ (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر1876، صحیح مسلم، حدیث نمبر147)

تشریح: شاید یہ خدا کا منصوبہ ہے کہ دین کی قدریں جب دوسری جگہ مٹ رہی ہوں اس وقت بھی وہ مدينه (وسيع تر معنوں ميں حجاز) میں موجود رہیں۔ حجاز كو الله نے ابدي طورپر مركز اسلام كي حيثيت دے دي هے۔ بعد كے زمانے ميں جب كه زمين كے دوسرے حصوں ميں غير اسلامي تهذيب كا غلبه هوجائے گا اس وقت بھي حجاز ميں كسي نه كسي درجه ميں اسلام كي مركزيت باقي رهے گي۔ ايسا غالباً اس لیے هوگا كه حجاز ميں اسلام كي دو سب سے بڑي عبادت گاهيں واقع هيں،یعنی كعبة الله اور مسجد نبوي۔

161

ربيعه الجرشي رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آنے والا آيا۔ پھر آپ سے كها گيا۔ آپ كي آنكھيں سوتی رہیں، اور آپ كے كان سنتےرهیں اور دل سمجھتا رهے۔ آپ نے فرمايا كه پھر ميري آنكھيں سوگئيں۔ اور ميرے دونوں كانوں نے سنا اور ميرے دل نے (اس کو)سمجھا۔ آپ نے فرمايا كه مجھ سے یہ (مثال) بیان کی گئی : ايك مالك نے گھر بنايا۔ اس نے وهاں ايك خوان تيار كيا اور بلانے والے کو بھيجا تو جس نے بلانے والے كي دعوت قبول كي، وہ گھر ميںداخل ہوا اور خوان سے كھايا اور مالك اس سے خوش هوا۔ مگر جس نے بلانے والے كي دعوت قبول نہ کی ،وہ نه گھر ميں داخل ہوا ، نه اس نے خوان سےكھايا ،چنانچہ مالك اس سےناراض هوا۔ آپ نے فرمايا كه مالك سے مراد الله هے، اور بلانے والے سے مراد محمد هيں۔ اور گھر سے مراد اسلام هے۔ اور خوان سے مراد جنت هے۔(سنن الدارمي، حدیث نمبر11)

تشریح: انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن سو سال کے اندر ہی یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنی مرضی کے خلاف اِس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ زمین پر پیدا ہونے والا ہر انسان دو چیزوں کا تجربہ کرتاہے۔ پہلے زندگی کا تجربہ، اور اس کے بعد موت کا تجربہ۔اس قانونِ فطرت سے کسی کو استثنا حاصل نہیں۔ اگر انسان سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر سوچے تو وہ یقینی طورپر ایک بہت بڑی حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ انسان کو پیدا کرکے اِس زمین پر آباد کرنا بطور انعام نہیں ہے، بلکہ وہ بطور امتحان ہے۔موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔ یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ کون شخص بااصول زندگی گزارتا ہے اور کون شخص بے اصول زندگی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔اس حديث ميں تمثيل كي زبان ميں اسی معاملےكو بتايا گياهے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ذريعه الله نے كامل هدايت كا انتظام فرمايا۔ اب جو لوگ اس هدايت کی روشنی میں اپنی آزادی کا درست استعمال کریں گےان كے لیے كاميابي هے، اور جو لوگ اس كي پيروي نه كريں وه ابدي ناكامي كا شكار هو كر ره جائيں گے۔

162

ابو رافع رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:ميں تم ميں سے كسي كو اس حال ميں نه پاؤں كه وه اپنےتخت پر تكيه لگائے هوئے هو۔ اس كے سامنے ميرے احكام ميں سے كوئي حكم آئے جس كا ميں نے حكم ديا هے يا جس سے ميں نے منع كيا هے۔ پھر وه كهے كه ميں نهيں جانتا، جو كچھ هم نے الله كي كتاب ميں پايا اس كي هم نے پيروي كي۔ (مسنداحمد،حدیث نمبر 23876، سنن ترمذي، حدیث نمبر2663، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4605، سنن ابن ماجه، حدیث نمبر13)

شرح: قرآن كي حيثيت بنيادي اصول كي هے۔رسول الله صلي الله عليه وسلم نےاس بنيادي رباني اصول كي طرف لوگوں كو بلايا اور اس كو قائم فرمايا۔ اس طرح آپ كي زندگي قرآن كي عملي تشريح بن گئي۔ يهي وجه هے كه خود قرآن كو سمجھنے كے لیے رسول الله صلي الله عليه وسلم كي سنت كو جاننا لازمي طورپر ضروري هے۔

دین میں صرف قرآن کی حیثیت حجت (authoritative source) کی ہے، یا حدیث ِ رسول بھی دین میں یکساں درجے میں حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک خالص قانونی مسئلہ ہے۔ عملی اعتبار سے جس چیز کی اہمیت ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اسلام کی روح زندہ ہو۔ دین پر عمل کرنے کی تڑپ اس کے اندر پیداہوگئی ہو۔ اللہ سے محبت اور اللہ کا خوف اس کے دل میں بھر پور طورپر جاگزیں ہوگیا ہو۔ جن لوگوں کے اندر اسلام کی یہ اسپرٹ پیدا ہوجائے، وہ کسی قانونی فتوے کے بغیر پوری طرح اسلام کو اختیار کرلیں گے، اور جن لوگوں کے اندر اسلام کی روح بیدا رنہ ہوئی ہو، ان کے لیے کوئی بھی قانونی فتویٰ عملی بیداری کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ایک شخص قرآن کو دین میں حجت مانتا ہو، لیکن اس کے اندر دین کی اسپرٹ موجود نہ ہو تو وہ خود قرآن کے احکام پر بھی عمل نہیں کرے گا۔قرآن کے بارے میں وہ بڑی بڑی بحثیں کرے گا، لیکن اس کی حقیقی زندگی قرآن کی تعلیمات سے خالی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل مسئلہ حدیث کی حجیت کو منطقی طورپر ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ حدیث کی دینی اہمیت اور افادیت کو آدمی کے دل میں اس طرح اتار دیا جائے کہ وہ اُس سے انحراف کا تحمل نہ کرسکے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom