خدا کی آواز
خدا نے قرآن اتارا اور اس میں یہ کہا ہے کہ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا (25:1)۔یعنی، تاکہ وہ جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔ آيت كا يه حصه بتاتا ہے کہ خدا کی پلاننگ کیا تھی۔ وه پلاننگ یہ تھی کہ قرآن پر ایمان لانے والے لوگ اٹھیں، اور اللہ کی مدد سے اس کو پوری دنیا کے انسانوں تک پہنچا دیں۔ ایک طرف قرآن میں یہ اعلان تھا، اور دوسری طرف اللہ نے دنیا میں ایک نیا پراسس چلایا، جس کے نتیجے میں انٹرنیشنل کمیونی کیشن کا دور وجود میں آیا، جس کو اویل کرکے خدا کے منصوبے کو پورا کرنا تھا۔
اس درمیان بہت سے لوگ اٹھے جو وقت کی انٹرنیشنل زبان ،انگلش جانتے تھے۔ لیکن ان تمام لوگوں نے انگریزی زبان کو دنیا کمانے یا لیڈری کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔ دوسری طرف خدا کا منصوبہ انتظار میں رہا کہ کوئی اٹھے، اور اس کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوجائے۔ مگر میرے علم کے مطابق، کوئی ایک مرد یا عورت نہیں تھے، جو اس خدائی منصوبہ کے لیے اٹھے۔ کچھ لوگ بظاہر اٹھے، لیکن وہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل نہیں تھے کہ وہ مطلو ب معیار پر اس کام کو انجام دے سکیں۔
چنانچہ انھوں نے جو کام کیا، وہ لوگوں کے درمیان پہنچ نہ سکا۔ کیوں کہ وہ وقت کی معیاری زبان میں نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے کچھ بندوں کو اس کام کے لیے چنا۔ ان کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کی کہ وہ اس کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس طرح قرآن کا ترجمہ مطلوب درجے کی زبان میں تیارہوا، اور پھر انھیں بندوں نے اس ترجمے کو عالمی سطح پر پھیلانے کی کوشش شروع کی۔ ان شاء اللہ، لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کا مطلوب واقعہ پیش آنے تک کام جاری رہے گا۔
میں سوچتا ہوں تو مجھےتصور میں ایسا لگتا ہے کہ قیامت آگئی ہے۔ اور فرشتے اعلان کررہے ہیں کہ وہ لوگ اعلیٰ انعام کے لیے سامنے آئیں، جو اپنی بے بضاعتی کے باوجود دنیا کی زندگی میں اس مقصد کے لیے اٹھے کہ قرآن کو وقت کی انٹرنیشنل زبان میں ترجمہ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ تاکہ کسی کے لیے اللہ پر حجت قائم کرنے کی گنجائش نہ ہو(النساء،4:165)۔کیوں کہ یہی وہ مطلوب کام ہےجس کو انجام دینے سے عالمی انذار کا عمل پورا ہوگا۔