وعظ کون کرے
ایک بزرگ نے فرمایا : وعظ وہ شخص کرے جس کو وعظ کاکم سے کم اتنا تقا ضا ہو جتنا ایک شخص کو رفعِ حاجت (answering the call of nature)کا ہوتاہے۔
وعظ کا مطلب ریکارڈ بجانا نہیں ہے اور نہ یہ مقصد ہے کہ ایک شاندار تقریر کر کے لوگوں سے یہ دادلی جائے کہ کیا خوب بولے۔ وعظ کا مطلب اپنے اندرون کو انڈیلنا ہے، ایک پائی ہوئی حقیقت کو دوسروں تک پہنچانا ہے۔ ایک چھپی ہوئی بات کو لوگوں پر کھولنے کے لیے زندہ گواہ بن کر کھڑا ہونا ہے ۔ اس قسم کا وعظ محض کچھ الفاظ بولنا نہیں بلکہ ایک مشکل ترین عمل کرنا ہے۔ کوئی شخص حقیقی معنوں میں یہ عمل اسی وقت کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنی بات کو کہنے کے لیے اتنا مضطرب ہو چکا ہو کہ وہ محسوس کر ے کہ اس کو ہر قیمت پر اپنی بات لوگوں تک پہنچانی ہے ، خواہ اس کے لیے لو گ اس سے ناراض ہو جائیں اور خواہ اس کی راہ میں اس کو اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے ۔
یہی معاملہ تحریر کا بھی ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ اتنا زیادہ مطالعہ کرے کہ معلومات اس کے ذہن سے ابلنے لگے۔ متعلقہ موضوع پر جو ذخیرہ تیار ہو چکا ہے اس کو چھاپنے کے بعد وہ محسوس کرے کہ اب بھی کچھ لکھنے کے لیے باقی ہے۔ اس کا حال یہ ہوجائے کہ اس کی معلومات تھامے نہ تھمے اور اس کی بے تابی رو کے نہ رکے۔ جب یہ نوبت آجائے اس وقت آدمی کو لکھنے کے لیے اٹھنا چاہیے ۔ اس کے بغیر جو لوگ لکھیں وہ صرف سفید کا غذ کو سیاہ کرنے کا کام کریں گے اور اس کے بغیر جو لوگ بولیں وہ صرف فضائی شور و غل میں اضافہ کا باعث ہو ں گے۔ اس طرح کا لکھنا اور بولنا نہ سننے والوں کو کوئی فائدہ دیتا ہے اور نہ سنانے والوں کو۔
واعظ کا وعظ کوئی کھیل تماشا نہیں ، وہ بندوں کے سامنے خدا کی نمائندگی ہے۔ اس کا م کو کرنے کا حق صرف اس شخص کو ہے جو اپنی ہستی کو خدا میں گم کر دے۔ جو لوگ اس کے بغیر واعظ بنیں وہ حقیقۃً مجرم ہیں، نہ کہ واعظ۔