کنفیوزن کیوں

لوگوں کی گفتگو سنیے یا ان کی تحریر کو پڑھیے۔ ہمیشہ ایسا پائیں گے کہ ان کی تقریریا تحریر میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ساری گفتگو یا ساری تحریر کو پڑھ ڈالیے۔ آپ کو اس سے کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملے گا۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔ اگر پہلے انھوں نے ایک غلط بات کہہ دی تھی، تو بعد کو اس کی غلطی کا اعتراف کیے بغیر نئی بات بولنے لگے۔ اس دوطرفہ بیان سے اس کی بات میں کوئی وضوح نہیں آسکتا۔ مثلاً اگر وہ کل تک ٹکراؤ کی پالیسی کو چلاتے رہے ہیں، اور آج وہ یہ دعوت دیں کہ صبر کرو تو کسی کو سمجھ میں نہیں آئے گا کہ ان کا صبر کیا ہے۔ اس قسم کا دہرا طرز فکر ہمیشہ کنفیوزن پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی بات سننے یا پڑھنے سے کسی کو کوئی ٹیک اوے نہیں ملتا۔

کلام میں کنفیوزن زیادہ تر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر ایک اور بات بولنے لگتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے کلام میں وضوح (clarity)ہو۔ آپ کے کلام میں لوگوں کو ٹیک اوے ملے۔آپ کے کلام سے لوگوں کے سامنے راہِ عمل واضح ہو تو سب سے پہلے اپنی غلطی کا اعتراف کیجیے۔

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ مختلف قسم کی باتیں بولتے رہتے ہیں، اوراس کے بعد چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ایک صحیح بات کی رہنمائی دیں۔ اس طرح کی بات میں لوگوں کو کبھی واضح رہنمائی نہیں ملتی۔ صحیح رہنمائی دینے کے لیے آپ کو ایسا کرنا پڑے گا کہ آپ صحیح کو صحیح کہیں، اور غلط کو غلط بتائیں۔ اس طرح کے کلام سے لوگوں کے ذہن میں صحیح اور غلط الگ الگ ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ صحیح میں غلط ملائیں، اور غلط میں صحیح ملائیں تو آپ کے کلام میں لوگوں کو کبھی واضح رہنمائی نہیں ملے گی۔ آپ کو ایسا کرنا ہوگا کہ آپ غلط کو غلط بتائیں، خواہ ایسا کرنے میں آپ کی اپنی ذات غلط ہورہی ہو۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom