بے صبری نہیں
ایک حدیثِ رسول یہ ہے:الأَنَاةُ مِنَ اللهِ وَالعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2012)۔ یعنی عدم عجلت اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔ایک دوسری روایت میں ہے: وَإِذَا اسْتَعْجَلْتَ أَخْطَأْتَ ، أَوْ كِدْتَ تُخْطِئُ(السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر 20271)۔ یعنی، اگرتم نے جلد بازی کی تو غلطی کا ارتکاب کیا ،یایہ امکان ہے کہ تم غلطی کرجاؤ۔
انسانی عمل کےدو طریقے ہیں— ایک ہے عجلت کا انداز، اور دوسرا ہے توقف کا انداز۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جو کام سوچ سمجھ کر کیا جائے، اس میں نقصان کااندیشہ کم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، جس کام کو بغیر سوچے سمجھے اور منصوبہ بندی کے بغیر کیا جائے اس میں نقصان کااندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس فطری حقیقت کا اعلان ٹریفک سیفٹی کے حوالے سے شاہراہوں پرجگہ جگہ کیا جاتا ہے — تیز رفتاری سے انسان کو تھرل ملتا ہے، مگر وہ انسان کی جان لے لیتا ہے:
Speed thrills but kills
گاڑی چلاتے ہوئے راستہ میں بہت ساری چیزوں کی رعایت کرنی پڑتی ہے تب آپ حفاظت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ مثلاً اسپیڈ بریکر، ٹریفک لائٹ، دوسری گاڑیاں، پیدل چلنے والے لوگ اور سڑک کا گڑھا (pothole)، وغیرہ۔ اگر آپ ان چیزوں کا خیال نہ کریں، اور فل اسپیڈ میں گاڑی کو چلاتے رہیں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ کسی جگہ آپ ایکسیڈنٹ سے دوچار ہوجائیں گے۔
یہی معاملہ انسانی زندگی کا ہے۔مولانا وحید الدین خاں صاحب کے بقول ’’اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت سے انجام پاتا ہے۔ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خارجی اسباب کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ اپنی کوشش کا۔ خارجی اسباب کا لحاظ نہ کرتے ہوئے جو اقدام کیاجائے گا وہ صرف تباہی کی طرف لے جاتاہے۔جلد بازی میں آدمی صرف اپنی خواہش کوجانتا ہے ،وہ خارجی اسباب سے بے خبر رہتا ہے۔اس کے برعکس، صابر انسان اپنی خواہش کے ساتھ خارجی اسباب کو بھی اپنے دھیان میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلد بازی کرنے والا آدمی اکثر ناکام ہوتاہے اور صابرانسان ہمیشہ کا میاب رہتا ہے‘‘ (ماخوذ،الرسالہ، مارچ اپریل، 2022)۔ڈاکٹر فریدہ خانم