اسلامی روحانیت
روحانیت اگر چہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، لیکن یہ قرآن و حدیث کی اصطلاح نہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانیت اگر چہ باعتبارِ لفظ قرآن میں نہیں ہے، لیکن باعتبارِ معنی وہ قرآن میں موجود ہے۔ یہ قرآنی لفظ الربانیہ (آل عمران، 3:79)ہے ، یعنی رب رخی روحانیت :
God Oriented Spirituality
تاہم اسلامی روحانیت مبنی بر قلب روحانیت (heart based spirituality) کا نام نہیں ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت ایک متصوفانہ اصطلاح ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل مائنڈ بیسڈ اسپریچوالٹی کا دوسرا نام ہے،یعنی فکر و شعور کی اصلاح۔اس کا ذریعہ مراقبہ (meditation) نہیں ہے،بلکہ اس کا ذریعہ غوروفکر (contemplation) ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں غور وفکر کرنا اور اُن سے معرفت کا ذہنی یا فکری رزق حاصل کرنا۔ قرآن میں اس موضوع پر جو آیتیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مبنی بر ذہن روحانیت (mind-based spirituality) کو مانتا ہے ۔ مبنی بر قلب روحانیت کا تصور اسلام میں موجود نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی دو متعلقہ آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
’’ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ (3:190-191)
مبنی بر قلب روحانیت اور مبنی بر ذہن روحانیت میں یہ فرق ہے کہ مبنی بر قلب روحانیت ایک پر اسرار تصور ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت کو معلوم اخلاقیات کی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس، مبنی بر ذہن روحانیت مکمل طور پر مبنی بر عقل روحانیت ہے۔ اس کے اصول بیان کرنا، اسی طرح آسان ہے، جس طرح دوسرے عقلی مضمون کو بیان کرنا۔ مبنی بر ذہن روحانیت ایک معلوم اور قابلِ دریافت روحانیت ہے۔