ایک انٹرویو
(دوسری قسط)
سوال:مولانا، ہماری دینی جماعتوں نےتعمیر کردار، تطہیر افکار اور تطہیر سیاست کا کام ایک ساتھ شروع کیا ہواہے اور ان تین کاموں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔آپ کے خیال میں یہ جماعتیں اس کام میں کس حد تک کامیاب ہوئیں؟
جواب:میرا خیال ہے کہ تعمیر افراد کاکام ان جماعتوں سے نہیں ہوسکا۔دیکھئے،جب آپ کوئی تحریک اٹھاتے ہیں تو دیکھنا یہ بھی ہوتا ہے کہmain thrust کس چیز پر ہے۔اگر مین تھرسٹ اپنی ذات پر ہے تو احتسابِ ذات کا جذبہ ابھرے گا اور اگر مین تھرسٹ خارج پر ہے تو احتسابِ نظام کا جذبہ ابھرے گا۔جہاں احتساب نظام کاجذبہ ابھرے گا،وہاں اصلاح ذات کا کام نہیں ہو سکتا۔ان جماعتوں کا مین تھرسٹ نظام پر تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اصلاحِ ذات اصل کنسرن کی حیثیت سے عملاً حذف ہو گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ آدمی جس قسم کی تعبیردین سے متاثر ہوگا وہ ہر مسئلہ کو اسی رنگ میں دیکھے گا۔سیاست دین کا ایک جزء ہے،مگر وہ مرکزی جزء نہیں۔ لیکن اگر آپ اس کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر مرکزی جگہ رکھ دیں اور دین کی ایسی تشریح کریں کہ سیاسی انقلاب ہی اسلامی تحریک کاآخری مقصود نظرآنے لگے تو یقینی طور پر آپ کے سوچنے کا انداز بدل جائے گا۔جماعت اسلامی کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔اب جو لوگ اس کی پیروی کر رہے ہیں ان کا انجام بھی وہی ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ نے انسان کے دو دل نہیں بنائے۔مطلب یہ کہ انسان بیک وقت دو چیزوں پر فوکس نہیں کر سکتا۔ایک طالب علم یا تو ڈاکٹر بن سکتا ہے یا داداگیری کر سکتا ہے۔ احتساب نظام بھی ہو اور احتساب خویش بھی۔یہ ہو نہیں سکتا۔یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے اور انسانی فطرت سے ٹكراؤ مول لے کر آپ کام نہیں کر سکتے۔
سوال: لیکن مولانا، جن جماعتوں نے تعمیر افراد اور احتساب ذات کے کام پرہی توجہ مرکوز رکھی اور احتسابِ نظام سے کامل علیحدگی اختیار کرلی، ان کے اثرات بھی معاشرے پر محدود ہی ہیں۔جیسا کہ تبلیغی جماعت نے فرد کی تعمیر کو اپنا مقصود قرار دے دیا ہے اورامورِ سیاست سے بالکل کٹ گئی ہے؟
جواب:دراصل یہ تحریک جس کا آپ نے ذکر کیا خوش عقیدگی کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ اس کا لٹریچر فضائل تک محدود ہے۔اب خوش عقیدگی ایک چیز ہے اور فکری تبدیلی دوسری چیز۔یہ خوش عقیدگی نہیں تو کیا ہے کہ مسواک کرو تو جنت مل جائے گی۔اس طرح کے اندازِ کار سے فکری تبدیلی نہیں آتی اور نہ معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
قرآن و سنت کے مطالعے سے دین کا جو مطلب میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ دین کے تقاضے دو قسم کے ہیں۔ایک تقاضا دین کی اصل اور روح ہے،وہ ہے اللہ کی معرفت اوراس سے خشیت اور محبت کا تعلق۔اس کے اوپر اعتماد،اس کی عبادت اور معاملات زندگی میں اس کی تابعداری۔دوسرا تقاضا وہ ہے جو مادی دنیا اوردین کے تصادم سے پیدا ہوتا ہے۔دین کو فکری اور عملی طورپر سربلند رکھنے کے لیے مختلف صورتیں پیش آتی ہیں اور موقع کے اعتبار سے ہر جگہ مومن کو ان سے نپٹنا پڑتا ہے۔کہیں رکانہ (بن عبديزيد) سے کشتی لڑنی پڑتی ہے،کہیں حسان بن ثابت کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ بذریعہ اشعار مخالفین کا جواب دیاجائے۔ کہیں عقل کو مطمئن کرنےکے لیے وقتی اسلوب میں حجت ابراہیمی پیش كرني هوتي ہے، کہیں بدروحنین کے معرکے درپیش ہوتے ہیں،کہیں غیر مسلموں سے معاہدہ کرنا پڑتا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔
جہاں تک پہلے تقاضے کا تعلق ہے وہ دین کی اصل ہے اور دائمی طور پر دین کے مطلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔مگر دوسری چیز کی یہ حیثیت نہیں۔وہ دین کااضافی جزء ہے، نہ کہ حقیقی۔ جس وقت اس طرح کے تقاضے بروئے کار آ چکے ہوں،اس وقت یہ اضافی جزء بھی حقیقی جزء کی طرح مطلوب قرار پاتا ہے۔مگر جب حالات نے اس کی ضرورت پیدا نہ کی ہو اس وقت مومن کے اوپر اس طرح کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
تبلیغ دین کا کام ایک ایک فرد میں حقیقتِ دین کو زندہ کرنے کی کوشش ہے۔یہ بات میں تبلیغ کی اصل یعنی دعوت کے اعتبار سے کہہ رہا ہوں، نہ کہ اس کے مخصوص طریقِ کار کے اعتبار سے۔کیونکہ طریقِ کار خواہ وہ کسی بھی جماعت یا تحریک کا ہو، ہمیشہ اضافی ہوتا ہے۔لیکن تبلیغ کی ساری اہمیت کو تسلیم کرنے کے بعد بھی دین کے لیے کچھ اور کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔اس دوسرے میدان میں امت کے دوسرے موزوں افراد کوجدوجہد کرنی چاہئے اور خود تبلیغ کرنے والوں کو اخلاص کی شرط کے ساتھ ان کی کوشش کو تسلیم کرنا چاہئے اور انفرادی طور پر اس میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مثال کے طورپربیسویں صدی کے نصف آخرمیں ہم کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ مغربی افکار کے حملہ کو روکا جائے اور عملی طور پر دین کی مدافعت کی جائے۔پھر یہ کہ جدید دنیا میں مسلمانوں کوعزت اور سربلندی کامقام دلانے کی تدبیریں کی جائیں، جدید ضرورتوں کے مطابق اسلامی قانون کی تدوین کی جائے، موجودہ حالات کے اعتبار سے مسلمانوں کا ایک نیا نظام مرتب کیا جائے،جمہوریت اور سیکولرزم سے وقتی طورپر پیدا شدہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے،جدید ذہن کے لحاظ سےاسلام کادعوتی لٹریچر تیار کیا جائے۔ یہ سارے کام کوئی ایک شخص یا گروہ اکیلا سر انجام نہیں دے سکتا۔یہ ممکن ہے کہ ہر ایک دوسرے کو تسلیم کرے اور ایک دوسرے سے مشورہ کرے اور کم از کم انفرادی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کرے۔ اس قسم کا تبلیغی کام جو موجودہ دور میں تبلیغی جماعت کر رہی ہے، کافی نہیں۔میرا اعتراض یہ ہے کہ خوش عقیدگی ہی کو تبلیغ کا مقصد قرار نہ دے دیا جائے،اس لیے کہ اس سے فکری تبدیلی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔
سوال:بعض اصحاب فکر کاخیال ہے کہ انبیائے کرام کے بعد دعوتی، علمی اور سیاسی کام کسی ایک شخصیت میں نہ جمع ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ صحابہ کرام نے تقسیم کار کے اصول ہی کو اختیار کیا۔اب بھی تقسیم کار کا اصول اختیار کرکے دینی کام میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اس معاملہ میں انبیائے کرام کی تقلید نہیں کی جاسکتی کہ ان کے خیال میں ان کی ذات میں یہ سارے کام جمع ہو گئے تھے۔کیا تقسیم کار کی اس تعبیر سے آپ اتفاق کرتے ہیں؟
جواب:تقسیم کار کے اصول سے مجھے اصولی طور پر اتفاق ہے،لیکن تقسیم کار کس چیز میں،اس میں نہیں کہ تم دعوت کا کام کرو،تم انقلاب کا کام کرو،تم جاكر ان کو گولی مارنے کا کام کرو اور میں پڑھاتا ہوں، وغیرہ۔یہ تقسیم کار نہیں، مقصد کو فوت کر نے کے ہم معنی ہے۔بلکہ مرحلہ اول میں جس چیز کی ضرورت ہے اس میں تقسیم کا اصول اختیار کیاجائے۔جیسے فکری انقلاب لانا ہے تو فکری کام میں تقسیم کار ہوگی۔ کچھ لوگ تحقیق کا کام کریں،کچھ اخبار نکالیں،کچھ لائبریریاں قائم کریں، وغیره وغیرہ۔
سوال:آپ کا خیال ہے کہ مرحلۂ اول میں جو کام درکار ہیں ان میں تدریج کار ہے ،ان میں تقسیم کار نہیں ؟
جواب: جی ہاں، تدریج کار ہے۔انبیائے کرام نے بھی اس طرح کی تقسیم کار کے مطابق کام نہیں کیا،بلکہ تدریج کار کے مطابق کام کیا ہے۔یہ واقعہ کے خلاف ہے کہ انبیائے کرام نے بیک وقت تمام کام کیے۔اس کا ثبوت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتا ہے۔مکہ میں صرف نظریہ کی تبلیغ کی۔شراب اور زنا کو چھوڑنے کا حکم تک نہ اترا۔کعبہ میں بت نصب تھے،ان کو چھیڑنے کا حکم نہ اترا۔اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔رسول اللہ نے کم از کم تیرہ سال تک اپنے آپ کو مرحلہ اول تک محدود رکھا۔بعد ازاں بتدریج احکام اترنے لگے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تدریج کار کے مطابق کام کیا،تقسیم کار کے مطابق نہیں۔
سوال:ہمارے ہاں اقتدار کے بغیر اطاعت فی المعروف کی بنیاد پر بعض جماعتیں قائم کی گئی ہیں۔ جن کا اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ معروف میں امیر کی اطاعت ان کے لیے لازم ہے، جس طرح اسلامی حکومت کے امیر کی اطاعت اس کی رعایا پر لازم ہوتی ہے۔آپ کے خیال میں کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟
جواب:مجھے اس سے اتفاق نہیں۔میرے نزدیک جماعت سازی یا امیر مقرر کرنا سہولت کار کے لیے ہیں۔یہ فریضۂ دین نہیں۔جن جماعتوںکاآپ نے ذکر کیا ہے وہ اس کو فریضۂ دین قرار دیتی ہیں۔اب اسلامی مملکت کے امیر کی اطاعت سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور اس سے بغاوت جائز نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کے فہم حدیث کا تو یہ عالم ہے کہ جو حدیث اسلامی مملکت کے امیر کے لیے ہے وہ اس کو اپنی ذات پر چسپاں کر لیتے ہیں۔حالانکہ’’الجماعت‘‘ اور چیز ہے اور ان کی جماعت اور چیز۔
سوال:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقامت دین اسی طرح فرض ہے جس طرح کہ نماز،زکوۃ وغیرہ؟
جواب:اقامتِ دین کا جو مطلب ہمارے ہاں بعض جماعتیں پیش کرتی ہیں،وہ ان کا خود ساختہ ہے۔وہ اقامتِ دین سے اقامتِ نظام مراد لیتی ہیں۔یہ اقامتِ دین کی غلط تعبیر ہے۔اقامتِ دین سے مراد سارے شرعی نظام کو لوگوں کے اوپر نافذ کرنا نہیں ۔بلکہ دین کے اس بنیادی حصے کوپوری طرح اختیار کرنا ہے جو ہر شخص سے ہر حال میں مطلوب ہے اور جس کو اپنی زندگی میں پوری طرح شامل کر لینے کے بعد کوئی شخص خدا کی نظر میں مسلمان بنتا ہے۔ قرآن کی جس آیت سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیںوہاں’’اقیموا الدین‘‘ سے مراد اساساتِ دین ہے، یعنی توحید اور آخرت، وغیرہ۔تمام علما نے اس کی یہی تفسیر کی ہے اور اس کا یہی مطلب بیان کیاہے۔
سوال:مولانا، بعض علما کا خیال ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دین کا کام کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔یا تو وہ پہلے سے موجود کسی جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنی جماعت قائم کر لے،تیسرا کوئی راستہ نہیں۔آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: میں اس خیال سے متفق نہیں۔کسی جماعت میں شمولیت کے بغیر بھی دین کا کام ہو سکتا ہے۔قرآن و حدیث میں اس امر کی کوئی پابندی نہیں۔یہ فرائضِ دین میں شامل نہیں۔یہ ان لوگوں کا خود ساختہ دینی فرض ہے۔اپنی خود ساختہ تعبیروں کے لیے یہ خدا کے سامنے خود ہی جوابدہ ہوں گے۔
سوال:آپ جماعت اسلامی ہند میں طویل عرصہ تک شامل رہے ہیں۔کیا جماعت اسلامی ہند اب بھی انہی بنیادوںپر کام کر رہی ہے،جن بنیادوں پرتقسیم ہند سے قبل کر رہی تھی؟
جواب:یہ ایک المناک کہانی ہے۔جماعت اسلامی ہند فکری اور اعتقادی طور پر تو وہی ہے جو کہ پاکستان کی جماعت اسلامی ہے،لیکن اس کے لیے حالاتِ کار مختلف ہیں۔جب میں جماعت اسلامی ہند میں تھا تواس وقت قومی اور ملکی مسائل کو پروگرام میں شامل کرنا گناہ کے درجے میں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بین الاقوامی جماعت ہیں،ان کانظریہ بین الاقوامی ہے اور یہ کہ ملی مسائل حقیقت میں کچھ نہیں۔لیکن آج ان کی پوری تحریک ملی مسائل کی بنیاد پر چل رہی ہے۔میں نے ان سے کہا کہ جب تک آپ یہ اعلان نہ کر یں کہ آپ نے اپنے سابقہ نظریہ کو خیرباد کہہ دیا ہے اس وقت تک ملی کےمسائل کے لیے تحریک چلانا آپ کے لیے مفید نہیں۔یہ کیا کہ یہ بھی صحیح اور وہ بھی صحیح۔لٹریچر میں لکھا ہوا ہے کہ تعلیم گاہیں قتل گاہیں ہیں۔آج جماعت اسلامی کے لوگ اسکولوں میں پڑھ بھی رہے ہیں،ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔اس طرح ان لوگوں نے دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے۔اور ڈبل سٹینڈرڈ اختیار کرکے آدمی کہیں کا نہیں رہتا۔ جماعت اسلامی ہند کےساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔
سوال:جماعت اسلامی پاکستان گزشتہ پینتالیس سال سے اسلامی نظام کے نفاذکے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔آپ کے خیال میں اب تک اس کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی؟
جواب:جماعت اسلامی پاکستان،اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو جد وجہد کر رہی ہے، میں اس کو’’اصولاً‘‘ صحیح سمجھتا ہوں۔پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور آزادی کے بعد اصولی طور پروہاں کی آبادی کویہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں جس طریق زندگی اور جس نظام معاشرت کو چاہے رائج کرے۔ایسی حالت میں پاکستان کی امت مسلمہ کا یہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلامی نظام امارت قائم کرے۔اس کے تحت زندگی کے تمام شعبوں کو اسلامی احکام اور قوانین کے مطابق منظم کرے۔لیکن جماعت کے اس جد وجہد کے پیچھے جو فلسفہ ہے،وہ صحیح نہیں۔مجھے امید نہیں کہ ان کی یہ جدوجہد کامیاب ہوگی۔اور اگر کامیاب ہو بھی گئی تو کردار کی کمزوری بہت جلد اس کو ناکامی میں بدل دے گی۔پاکستان میں جماعت اسلامی کی حکومت کا وہی حشر ہوگا جو کیرلا میں کبھی کمیونسٹ وزارت کا ہوا تھا۔پاکستان میں جماعت اسلامی کے طریق کار سے مجھے یہ اختلاف ہے کہ اس نے تدریج کار کا خیال نہیں رکھا۔یہ تدریج کے اصول کے خلاف ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ الٹا اہرام تعمیر کرنے کے مترادف ہے جو نہ کبھی بنا ہے اور نہ بن سکتا ہے؟
سوال:مولانا، آئے روز ہندستان سے فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔آپ بتائیں گے کہ وہاں ان فسادات کا حقیقی سبب کیا ہے؟اوریہ کہ وہاں کے مسلمانوں کے لیے نجات کی راہ کیا ہے؟
جواب:ہندستان میں مسلمانوں کی تعداد دس بارہ کرور ہے۔ تاریخ میں کوئی مثال نہیں کہ اتنی بڑی تعداد کو ظلم اور فساد کے ذریعے مٹادیا گیا ہو۔اس کے برعکس،حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے فساد مسلمانوں کی زندگی کی سب سے بڑی ضمانت ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی دنیا ہے کہ جہاں دبنے کے بعد زیادہ ابھرنے کا اصول رائج ہے۔ایسے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ قانونِ قدرت ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیبوں کو وجود میں لانے والی ہمیشہ وہ قومیں تھیں،جو شکست اور محرومی سے دوچار کی گئیں۔مثال کے طور پرمغرب کی مسیحی قوتیں صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد جدید صنعتی تہذیب کی خالق بنیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کو محرومی اور شکست میں مبتلا کر کے ان کے خاتمے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔وہ ایک ایسے نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں جو قانو نِ قدرت کے مطابق ان کے اندازوں کے سراسر خلاف،بلکہ برعکس صورت میں ظاہر ہونے والا ہے۔
سوال:سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اب نجات کی راہ کیا ہے؟
جواب: ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب خواہ کچھ بھی ہو،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ فسادات اگر بند ہوںگے تو صرف اس وقت ہوں گے جب مسلمان اپنے حصے کا فساد بند کر دیں گے۔ مسلمان اپنے حصے کا سبب ختم کرکے دوسروں کو آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے حصے کا سبب ختم کر دیں۔ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات صرف یک طرفہ کارروائی سے ختم ہو سکتے ہیں اور یہ یک طرفہ کارروائی بہرحال مسلمانوں کوکرنا ہوگی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں یک طرفہ طور پر راضی ہو کر قریش کی فساد انگیزیوں کا سلسلہ ختم کروا دیا۔اسی طرح ہمیں بھی یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو پابند بنانا ہے۔ اگر ہم دوسرے فریق کی طرف سے بندش کی کارروائی کا انتظار کریں گے تو ایسا انتظار کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
سوال:مسلمان فسادات کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟
جواب:مسلمان فساد کو ختم کرنے کے لیے یہ کریں کہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔تمام فسادات کا مشترک سبب یہ ہے کہ مسلمان اس راز کو نہیں جانتے کہ زندگی میں کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔اب جس چیز کو نظر انداز کرنا چاہیے اس پر مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ فساد ہے۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب کیا ہے؟کیوں کراچی میں فساد برپا ہوتا ہے؟کیوں کوئٹہ میں شیعہ سنی تصادم ہوتا ہے؟کیوں پنجابی سندھی ٹکراؤ ہوتا ہے؟اس لیے کہ ہر ماحول میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں جن سے الجھنے کے بجائے ان کو نظرانداز کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ان سے الجھنا ان کو اور بڑھانے کے ہم معنی ہے۔یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے۔اسی لیے قرآن میں صبر اور اعراض کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
نظر انداز کر دینے والی باتوں کو نظر انداز نہ کرنا وہ غلطی ہے جس میں ہندستان کے مسلمان بھی مبتلا ہیں اور پاکستان کے مسلمان بھی ۔اس کی قیمت دونوں جگہ کے مسلمان شدید ترین صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور پاکستان کے مسلمان غیر مستحکم سیاسی نظام کی صورت میں۔ہندستان کے مسلمانوں کے لیے فسادات کا واحد حل ’’اعراض‘‘ہے۔مسلمان اس ’’اعراض‘‘ کو استعمال کریں گے تو ایک دن میں تمام فسادات بند ہو جائیں گے۔اگر مسلمان اس طریقہ پر راضی نہ ہوں گے تو موجودہ تدبیروں سے آئندہ پچاس سال تک بھی فسادات بند نہ ہوں گے، جس طرح گزشتہ پچاس سال میں اس قسم کی تدبیروں کے باوجود فسادات بند نہیں ہوئے۔
پھر یہ کہ ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات پر جب کوئی مسلمان بات کرتا ہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی چیز کی کوشش کرتا ہے کہ خالص قانونی اور منطقی جائزہ لے کر یہ دیکھتا ہے کہ کون سا فریق حق پر ہے اور کون ناحق پر۔یہ طریقہ سراسر غلط ہے،کیونکہ بعض امور وہ ہوتے ہیں،جن میں حق اور ناحق کو نہیں دیکھا جاتا،بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کا عملی حل کیا ہے۔حدیبیہ کے مقام پر جب مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو آپ نے اس کا مضمون املا کراتے ہوئے کاتب سے کہا:لکھو یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول نے صلح کیا (هَذَا مَا صَالَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولَ اللَهِ)۔قریش کے نمائندے نے کہا:ہرگز نہیں،اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو جھگڑا کیا تھا۔صرف محمد بن عبد اللہ لکھو۔آپ نے فوراً کاتب سے کہا: محمد بن عبد اللہ لکھ دو۔اگر آپ اس کو حق اور نا حق کا معاملہ بناتے تو کبھی اس معاملے کو ماننے پر رضا مند نہ ہوتے،خواہ سارے مسلمان وہیں کٹ کر مر جاتے۔مگر آپ نے عملی پہلو دیکھا۔ کیونکہ اس وقت عملاً اس کے سوا کوئی حل نہ تھا۔اس لیے آپ محمد رسول اللہ کا لفظ چھوڑ کر صرف محمد بن عبداللہ لکھنے پر راضی ہو گئے۔(جاری)
آئیڈیل وزڈم، پریکٹکل وزڈم
پیغمبر اسلام ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کےساتھ سفر میں تھے۔ آپ کو یہ خبر ملی کہ راستے میں دوسری طرف سے مکہ کے خالد بن الولید آپ سے مقابلہ کرنے کے ارادے سے ایک مسلح دستہ لے کر آرہے ہیں۔ اس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہےجو ہم لوگوں کو کسی اور راستے سے لے جائے جس پر ان سے ٹکراؤ نہ ہو(مَنْ رَجُلٌ يَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِيقٍ غَيْرِ طَرِيقِهِمْ الَّتِي هُمْ بِهَا؟)۔ ایک آدمی نے کہا کہ میں۔ چنانچہ آپ نے اس وقت اپنے سفر کا راستہ بدل دیا (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 309)۔ اس کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور خالد کے ساتھیوں میں مڈبھیڑ نہیں ہوئی، اور آپ وہاں پہنچ گئے جہاں آپ کو جانا تھا۔
اس طریقہ کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم(practical wisdom) کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی زندگی کے واقعات کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیشہ ایسا کیا کہ آپ نے آئڈیل وزڈم کو چھوڑا، اور پریکٹکل وزڈم کو اختیارکیا۔ آپ کو اپنے مشن میں جو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، اس کا سبب یقینی طور پر یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجہ کے اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔