قارئینِ الرسالہ
(الرسالہ مشن کا مقصد لوگوں کو خدا سے قریب کرنا ، اور ان میں اعلیٰ سوچ پیدا کرنا ہے۔الرساله اور الرساله مشن کی کتابوں کے مطالعہ سے لوگوں کی زندگی میں کس قسم تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں، اس کی مثالیں روزانہ سامنے آتی رہتی ہیں۔ جو لوگ الرسالہ کا برابر مطالعہ کرتے ہیں ان میں معرفتِ خداوندی، سنجیدگی اور حقیقت پسندی پیدا ہو تی ہے ۔ ذیل میں الرسالہ مشن کے قدیم و جدید قارئین کے کچھ تاثرات نقل کیے جارہے ہیں تاکہ الرسالہ کے موجودہ قارئین کو ان سے اپنے تزکیہ ، معرفت اور دعوت کے لیےمزيدتحریک مل سکے — ایڈیٹر)
نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں اکتوبر 1984ایک جلسہ ہوا۔ اس میں اسلامی مرکز کی مطبوعات کا اسٹال لگایا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک رجسٹر بھی رکھا گیا تھا،جس میں بہت سے لوگوں نے اپنے تاثرات قلم بند کیے۔ان میں سے ایک تبصرہ یہ ہے:
The 'Introduction to Islam Series' publications have been found useful, but it was observed that these are printed in English and Urdu languages only. With the viewpoint of the propagation of Islamic teachings all the useful handbooks or booklets should also be released in the rest of the modern Indian languages. On the whole, the rest of the publications displayed here are excellent and bearing the upto date information about Islam. Thanks for the endeavour in this regard. Chander Mohan, D-917, Netaji Nagar, New Delhi 23 (February 1985)
شری منگل سین اپنے خط ( مو رخہ 4 اپریل 1985 ) میں لکھتے ہیں: آپ کا ما ہنا مہ الرسالہ با قاعد گی سے دستیاب ہو رہا ہے۔ اور جب یہ پہنچتا ہے تو سارے کام چھوڑ کر اس پر جھپٹ پڑنے کو جی چاہتا ہے۔ کسی سے بات چیت ہو رہی ہو تو فوراً ختم کرکے اس کو پڑھنا شروع کرکے تسکین ملتی ہے۔ بلا شبہ خدا نے آپ کے قلم میں وہ روانی عطا کی ہوئی ہے کہ جس سے ہمارے پاٹھکوں کو بہت آنند آتا ہے۔ گویا کہ یہ تحریر کسی خدا شنا س کی تحریر معلوم پڑتی ہے۔ (جولائی 1985)
ایک صاحب بمبئی سے لکھتے ہیں : الرسالہ میں ایک منفرد بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی شخص کو خواہ وہ کسی بھی شعبہ کا ہو اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو دینے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ۔ یہ بات کسی اور کتاب میں نہیں ہے ۔ ہمیں کوئی بھی پرچہ دینے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے اور بہت سی جگہ نہ دینے پر گزارا کر نا پڑتا ہے ۔ الرسالہ خدا کا خوف، حضور سے شدید محبت اور ایمان مضبوط کرتا ہے ۔ اس کے ذریعہ غصہ ، تکبر ، گھمنڈ کم ہوتا ہے اور آخرت کا ڈر اور اسلام کو پھیلانے کا احساس بڑھتا ہے ۔ ایک پروفیسر صاحب الرسالہ (انگریزی) پر نظر ڈالتے ہوئے خود بخود کہہ اٹھے ، بے شک بے شک۔ آج کے دور میں کم خرچ ، کم وقت اور زیادہ مناسب طریقہ پر ہم غیر مسلموں میں اسلام کو ، ’’انگریزی‘‘ الرسالہ کے ذریعے ہی پیش کر سکتے ہیں۔ (نومبر 1985)
محبوب نگر سے ایک صاحب کا خط ( 12 اپریل 1985) موصول ہوا ہے ۔اس خط کا ایک حصہ یہ ہے :میں حیدر آباد بذریعہ ٹرین جانے کی تیاری میں تھا کہ الرسالہ اپریل 1985 آپہنچا۔ میں نے سوچا کہ ڈھائی گھنٹے کے سفر کا ساتھی مل گیا۔ ٹرین چلتی رہی ۔ میں الرسالہ میں محو تھا۔ یہاں تک که آخری مضمون شروع ہوا ۔ رِقّت طاری ہوتی گئی ، آنسور واں ہو گئے ۔ گردو پیش کی کچھ خبر نہ رہی ، یہ بھی یاد نہیں رہا کہ میں سفر میں ہوں میرے اطراف کم از کم چار چھ مسافر تو مجھے دیکھ رہے ہوں گے۔ مضمون ختم ہوا تو پاس میں بیٹھے ایک غیر مسلم معمر ہم سفر نے پوچھا کیا بات ہےبھائی، کوئی ٹریجڈی بھری کہانی پڑھ رہے تھے کیا ۔ میں نے کہا نہیں یہ مذہبی پرچہ ہے۔ پھر میں نے ان کے کہنے پر مضمون کے بارے میں مختصراً بتاتے ہوئے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے جس سے و ہ کافی متاثر ہو کر کہنے لگے جو تحریک ایثار اور قربانی پر چلتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے‘‘۔ (دسمبر 1985)
ایک صاحب بنگلور سے (28 اکتوبر 1985کے خط میں)لکھتے ہیں : میں کئی سال سے الرسالہ کا قاری ہوں۔ اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ اس سے پہلے میں حق کی پکڈنڈی پر چل رہا تھا، اب میں حق کی شاہراہ پر چلتے ہوئے مومن کی کیفیت اپنے اندر محسوس کرتا ہوں ۔ مولانا کا انداز بیان میرے احساس میں ایسا اترتا ہے جیسے انھوں نے میرے دل کی باتوں ہی کی تصدیق کی ہے۔ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے کہ مولانا صاحب سے مجھے بہت تقویت ملی ہے ۔(فروری 1986 )
ذیل میں ایک جديد تعليم يافته خاتون کا تاثر نقل کیا جارہا ہے:
From Atheism to Belief: "A few years ago, my father was an atheist. He had listened to conventional religious speakers and read various religious books, believing they all essentially conveyed the same messages, even the Quran. Hearing my father talk about conventional Islam daily, I, too, began to adopt his views.
However, he eventually started reading translations of the Quran in English and Bengali. After years of carefully studying the Quran, my father’s beliefs shifted.
When I was living in the hostel, the religious teachers there imposed numerous restrictions on the girls—saying we couldn’t do this or that, implying that girls weren’t suitable for work outside the home and should remain within its boundaries. These limitations made me start resenting my religion. I wondered, if there is a Creator, why does such inequality exist between boys and girls?
A few months ago, a close friend introduced me to the works of Maulana Wahiduddin Khan. They said, 'Read Maulana Wahiduddin's books, and your perspective will change.' I have only read a little so far, but I already understand that what many so-called religious scholars have been saying differs from what the Quran actually conveys.
On October 14, a few members of Maulana Wahiduddin Khan’s CPS (Centre for Peace and Spirituality) team visited our home. We discussed religious matters, as well as Maulana Wahiduddin Khan’s works, writings, and philosophies. Hearing these discussions, many of my beliefs began to change. I realize now that understanding the Creator is complex, but I believe that by reading the Quran in a language I understand, I will find answers to my questions. I am truly happy to have been connected with the CPS team." (Ms. Tamanna Khatun, D/o A. H. Mondal, Nadia, West Bengal)