مایوسی نہیں، ری پلاننگ
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
اس آیت کا مطلب صرف عدم قنوط نہیں ہے۔ بلکہ اس آیت میں ری پلاننگ کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنھوں نے پہلے چانس کو کھودیا، ان کے لیے اللہ کے یہاں دوسرا چانس موجود ہے۔ وہ ری پلاننگ کرکے خود کو دوبارہ کامیاب بناسکتے ہیں۔عدم قنوط ایک عقیدے کی بات ہے، لیکن ری پلاننگ کا مطلب نیا راہِ عمل اختیار کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کچھ غلطی ہوگئی تو اس کی بنا پر خود کو ہمیشہ کے لیےناکام نہ سمجھ لو، بلکہ ری پلاننگ کرکے خود کو دوبارہ کامیاب بنا سکتے ہو۔
ری پلاننگ کا مطلب ہے پچھلے منصوبے میں تجربات کا اضافہ کرنا، اور نئی معلومات کی روشنی میں ازسر نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔ اس طریقِ کار کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ پہلے منصوبے میں جو مقصد حاصل نہ ہوا ہو، اس مقصد کو دوبارہ بہتر انداز میں منظم کرکے از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اصل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کرتا ہے۔ حدیثِ رسول ہے: كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الخَطَّائِينَ التَّوَّابُون(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2499)۔ یعنی ہر انسان غلطی کرنے والا ہے، اور سب سے اچھا غلطی کرنے والا وہ ہے جو غلطی کے بعد توبہ کرے۔یہ حدیث مذکورہ آیت کی شرح ہے۔ اس کا مطلب صرف زبانی طور پر لفظِ توبہ دہرانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جب انسان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ خود کو ناامیدی سے بچا کر اپنا محاسبہ کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کے اندر صحیح سوچ جاگے گی۔ اس طرح وہ اس قابل ہو جائے گا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کرے گا، اور سچائی کے راستے پر از سر نو چلنے لگے گا۔