غیرسنجیدہ انسان
قرآن میں انسان کی ایک ناپسندیدہ روش کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا(27:14)۔ یعنی اور انھوں نے ان کا انکار کیا،ظلم اور گھمنڈ کی وجہ سے، حالانکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا۔
انسانوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو حق کی دلیل واضح ہوجانے کے بعد بھی اس کو نہیں مانتے ہیں، وہ اپنے غیر سنجیدہ جواب کے ذریعہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ حق کی بات اس قابل ہی نہیں کہ اس کو کوئی وزن دیا جائے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان دلیل سمجھ میں آجانے کے بعد بھی اس کو نہیں مانتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دلیل کو ماننا اپنی بڑائی کی نفی کرنا ہے، اور غیر سنجیدہ انسان کویہ پسند نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کی نفی کی قیمت پر کسی بات کو مانے۔
یہ روش درست روش نہیں۔ یہ مزاج تواضع (modesty) کے خلاف ہے۔ خواہ انسان اپنے آپ کو کتنا ہی زیادہ ماڈسٹ مانے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پائی جائے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر چیز کو سچائی کی نسبت سے دیکھے گا، نہ کہ کوئی بات اس کے مزاج کے مطابق ہے یا نہیں۔ ماڈسٹ انسان اپنے مزاج کوبمقابلہ انسان کی نظر سے نہیں دیکھے گا،بلکہ وہ اپنے مزاج کو بمقابلہ سچائی کی نظر سے دیکھے گا۔
کوئی انسان غیر سنجیدہ انسان کیسے بنتا ہے۔ جب وہ زندگی کی گہری حقیقت سے واقف نہ ہو، وہ خدا کی معرفت سے خالی انسان ہو۔ ایسا انسان دنیا کو اس کے ظاہر کے اعتبار سے دیکھتا ہے، اور اسی اعتبار سے اپنے لیے ایک روش اختیار کرتا ہے۔یہ طریقِ زندگی بلاشبہ خدا سے بے خوفی کا نتیجہ ہے۔اس کے برعکس، سنجیدہ انسان وہ انسان ہے، جس کو سچائی کی دریافت ہو، اس کی زندگی کا مقصد خدا کی معرفت حاصل کرنا ہو۔ وہ تدبر و تفکر کا طریقہ اختیار کرے،تاکہ اس کے ذریعے سے اس کو کوئی روحانی خوراک حاصل ہو(آل عمران، 3:190-194)۔