فرقان کا اصول
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً (8:29)۔ یعنی اے ایمان والو، اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھیں فرقان عطا کرے گا۔
فرقان کا لفظی مطلب ہے فرق کرنے والا۔ابن عاشور التونسی (وفات 1393ھ)نے فرقان کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وَهُوَ مَا يُفَرِّقُ أَيْ يُمَيِّزُ بَيْنَ شَيْئَيْنِ مُتَشَابِهَيْن (التحریر و التنویر، جلد9، صفحہ326)۔ یعنی وہ صلاحیت جو دو مشابہ چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ قاضی ثناء اللہ (وفات 1810ء) نے فرقان کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے:بَصِيرَةٌ فِي قُلُوبِكُمْ تُفَرِّقُونَ بِهَا بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ (تفسیرمظہری ،جلد4،صفحہ 54)۔ یعنی اللہ تمھارے دلوں میں بصیرت عطا کرے گا ،جس سے تم حق اور باطل میں تمیز کرلو گے۔
آج کےالفاظ میں اس کو قوتِ تمییز (the art of differentiation) یا معیار (criterion) کہا جاسکتا ہے۔یعنی وہ صلاحیت جس کی روشنی میں انسان ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔وہ اِدھر اُدھر کے مغالطوں میں الجھے بغیر اصل حقیقت تک پہنچ جائے۔
فرقان کے معاملے کو دو اصحابِ رسول کے واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے: عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ،يَقُولُ: كَانَ بَيْنَ خَالِدٍ وَسَعْدٍ كَلَامٌ، فَذَهَبَ رَجُلٌ يَقَعَ فِي خَالِدٍ عِنْدَ سَعْدٍ ، فَقَالَ: مَهْ إِنَّ مَا بَيْنَنَا لَمْ يَبْلُغْ دِينَنَا(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ94)۔یعنی طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی۔ اس کے بعد ایک شخص حضرت سعد کے پاس آيا اور حضرت خالد کی بُرائی کرنے لگا ۔ اس پر حضرت سعد نے اس سے کہا: دور ہوجاؤ، ہمارے درمیان جو کچھ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا — حضرت سعد کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان جو اختلاف ہے، اس بنا پر ہم اپنی آخرت کو برباد نہیں کریں گے۔ یہی ہے فرقان کی صلاحیت۔