بے اطمینانی کا سبب
ٹاٹا انڈسٹری کے چیئرمین مسٹر رتن ٹاٹا (پیدائش1937ء) نے لمبی کوشش کے بعد 2008 میں ایک نئی چھوٹی کار بنائی ہے۔ اِس کار کا نام نانو(Nano) ہے۔ اِس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپیے ہے۔ اس کو دنیا کی سب سے سستی کار(cheapest car on earth) کہاجاتا ہے۔
نئی دہلی (پرگتی میدان) میں اِس کار کی نمائش کی گئی تو اس کو دیکھنے کے لیے بہت بڑی بھیڑ اکٹھا ہوگئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسٹر رتن ٹاٹا نے بظاہر بے شمار نئے لوگوں کے لیے سستی کار کی شکل میں ایک پُر مسرت تحفہ دیا، لیکن خود رتن ٹاٹا کو روحانی خوشی حاصل نہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (11 جنوری 2008 ) کی رپورٹ کے مطابق، انھوں نے کہا— میں اپنے آپ کو اپنی زندگی کے بہت زیادہ تنہائی کے دور میں پاتا ہوں:
I am in a very lonely phase of my life. (p. 1)
یہ کوئی انفرادی مثال نہیں۔ یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی ساری توانائی مادّی چیزوں کے حصول میں لگادیتے ہیں۔ جو اِس طرح رہتے ہیں گویا کہ زندگی کا مقصد مادی ترقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچتے ہیں، تو اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر مادی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اُن کو اندرونی خوشی حاصل نہیں۔ وہ اِسی طرح جیتے ہیں ، یہاں تک کہ مایوسی (despair) کی حالت میں مرجاتے ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی روح کے لیے سب سے زیادہ ربّانی غذا کی ضرورت ہے۔ صرف مادی غذا انسان کی فطرت کو ایڈریس نہیں کرتی۔ بظاہر خوش خوراکی کے باوجود اس کی داخلی شخصیت، روحانی فاقہ (spiritual starvation) میں مبتلا رہتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی، سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے۔(الرسالہ دسمبر2008 ، صفحہ 36)