اعترافِ خطا
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
یہ آیت تخلیقی (creative)مزاج لوگوں کے بارے میں ہے۔ تاریخ میں تمام بڑا کام تخلیقی مزاج لوگوں نے کیا ہے۔ وہ عام لوگوں سے زیادہ بڑا کارنا مہ انجام دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ روایتی طریقے سے ہٹ کر کام کرتے ہیں۔اس بنا پر ایسے لوگوں کے لیےغلطی کا امکان بھی زیادہ رہتا ہے۔ آیت میں اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ آدمی ہر حال میں پُرامید رہ کر اپنا عمل جاری رکھے۔ وہ ہر حال میں یہ ایمان رکھے کہ اگر نیت درست ہے تو کوئی غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو،اللہ کی معافی کی کوئی حد نہیں۔
ایک مرتبہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھ سے برابرگناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ آپ نے کہا:جب بھی غلطی ہوجائے توبہ کرلو،اس نے کہا: تب میرے گناہ بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ آپ نے کہا:عَفْوُ اللهِ أَكْثَرُ مِنْ ذُنُوبِكَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 4854) ۔یعنی، اللہ کی معافی تیرے گناہ سے زیادہ وسیع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غلطی کرنا برائی نہیں ہے، بلکہ غلطی کرنے کے بعد اللہ سے رجوع نہ کرنا برائی ہے۔ اللہ کے بارے میں یہ اعتقاد امید کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس عقیدہ کی صورت میں امید کی کوئی حد نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان ایک ارتقا پذیر حقیقت ہے۔ اس لیےاللہ کی رحمت سےامید کوئی سادہ بات نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل کا موقع انسان کے لیے ہر حال میں باقی ہے۔ یہ عقیدہ گویا مزید عمل کے لیے محرک (incentive) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے اندر عمل کے مواقع کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ انسان کو موقع دیتا ہے کہ وہ مزید سوچے، اپنا کریکشن کرےاورمواقع کی مزید صورتیں ڈھونڈ کر نکالے اور ہر حال میں اپنے مقصد کے لیے کوشش جاری رکھے۔ اس دنیا کا فطری قانون یہ ہے کہ جو ناامید ہوا، وہ ناکام ہوگیا، اور جس نے امید باقی رکھی، وہ کامیابی تک پہنچا۔