اعتصام باللہ ہدایت کا ذریعہ
ایک قاری الرسالہ نے سوال کیا ہے کہ قرآن کی ایک آیت ہے: وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(3:101) ۔ اس آیت کے مطابق اعتصام باللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔اس کی شکل کیا ہے۔ (مولانافیاض الدین عمری، گلبرگہ، کرناٹک)
قرآن کی مذکورہ آیت کا ترجمہ یہ ہے’’ جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا تو وہ پہنچ گیا سیدھی راہ پر‘‘۔ خدا سے تعلق کی بنا پر ہدایت ملنے کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں فطرت کے شواہد بیان کیے گئے ہیں۔ یہ شواہد اللہ رب العالمین کی معرفت تک پہنچانے والے ہیں۔ مثلاً سورہ آل عمران کی آیات 190-194 ۔ اس طرح کی آیتیں فطرت کی زبان میں خالق کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔
چنانچہ جب فطرت کی یہ نشانیاں دریافت ہوئیں، تو ایک علم وجود میں آیا، جس کو نظریاتی سائنس (theoretical science) کہا جاتا ہے۔یہ سائنس خالق کی دریافت کا ذریعہ ہے۔ مثلاً اس زمانے میں ایک کتاب لکھی گئی،جس کو کیرالا کے ایک کرشچن مشنری نے چھاپا تھا، اس کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Nature and Science Speak about God
یہ سائنسی دریافتوں کا اصل ثمرہ تھا۔ مگر بعد میں یہ ہوا کہ نظریاتی سائنس کو تطبیقی سائنس (applied science) کی طرف موڑ دیا گیا، یعنی علمی معرفت کے بجائے مادی منفعت کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ اس طرح دھیرے دھیرے یہ ہونے لگا کہ سائنسی دریافتیں خالق کی معرفت کے بجائے مادی منفعت کے لیے استعمال ہونے لگیں۔
اس طرح یہ ہوا کہ نظام فطرت کی جو دریافتیں خالق کی دریافت کا ذریعہ بن رہی تھیں، وہ صنعتی نظام کی صورت میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئیں۔ہنری فورڈ نے موٹر کار بنا کر بہت بڑی انڈسٹری قائم کی، اسی طرح رائٹ برادرس نے ہوائی جہاز بنا کر بہت بڑےہوائی صنعت کے لیے راہ کھول دی ، وغیرہ۔ لیکن یہ لوگ خالقِ کائنات کی دریافت کے چیمپین نہ بن سکے۔