ڈائری 1986
17 جون 1986
موجودہ عیسائیت کابنیادی عقیدہ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر گناہ گار ہے۔ انسان کا پیدائشی گناہ گار ہونا اور خدا کے بیٹے کا مصلوب ہو کر اس کا کفارہ بننا، یہی وہ خاص عقیدہ ہے جس پر موجودہ عیسائیت کھڑی ہوئی ہے۔پچھلے ڈیڑھ ہزار برس سےوہ اسی کی تبلیغ کرتی رہی ہے۔
مگر اس عقیدہ کی کوئی اصل آسمانی تعلیمات میں موجود نہیں۔ حتیٰ کہ خود بائبل (پرانا عہد نامہ، نیا عہد نامہ) میں بھی نہیں۔ موجودہ محرف بائبل بھی اس عقیدہ سے خالی ہے۔
کیتھولک چرچ کے ایک جرمن عالم ریورنڈ ہربرٹ هاگ نے ایک کتاب لکھی ہے:
Rev Herbert Haag: Is Original Sin in Scripture, New York, 1969
اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ عیسائی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ابتدائی زمانہ کے عیسائیوں میں تیسری صدی عیسوی تک اس عقیدہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ انسان پیدائشی گناہ گار ہے۔ ابتدائی تین صدیوں کے بعد یہ عقیدہ عیسائیت میں داخل ہوا۔ شروع شروع میں جب بعض عیسائیوں نے یہ نظریہ پیش کیا تو 2 سو سال تک یہ حال رہا کہ عیسائی علما اس کو ماننے سے انکار کرتے رہے۔آخر کار سینٹ آگسٹین(430-304ء) نے یونانی منطق کے زور پر ، نہ کہ حضرت مسیح کی تعلیمات کے زور پر، اس عقیدہ کو ایک بنیادی مسیحی عقیدہ کے طور پر مسیحیت میں داخل کر دیا۔ اس عقیدہ کا خلاصہ یہ تھا کہ— آدم نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر جو گناہ کیا تھا وہ گناہ انہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ پوری نسل انسانی نے اس کا وبال وراثت میں پایا ہے۔ اور اب انسان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ مسیح کے کفارہ کے ذریعہ نجات حاصل کرے۔
18جون 1986
مولانا شبیر احمد عثمانی سورہ النجم کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی رہنمائی ہوتی ہے۔ اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف آوری کے بعد آفتاب محمدی مطلع عرب سے طلوع ہوا‘‘۔ (صفحہ682)
تمثیل کے ذریعہ استدلال کتنا غلط ہوتا ہے، اس کی ایک مثال مذکورہ بالا اقتباس ہے۔علم افلاک کی رو سے ستارے کبھی غائب نہیں ہوتے ، بلکہ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔اسی طرح آفتاب سب سے بڑا اور درخشاں نہیں ہے۔اس سے بہت زیادہ بڑے اور درخشاں ستارے آسمان میں موجود ہیں۔استدلال ہمیشہ واقعات و حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ تمثیلات کی بنیاد پر۔کسی نے صحیح کہا ہے:
“Analogy is the weakest form of argument.”
19جون 1986
کونسل فار دی ورلڈز ریلیجنز(نیو یارک) کے تحت بنگلور میں ایک مختلف مذاہب کانفرنس ہوئی۔ اس کی تاریخ 30-26 جون 1986 ہے۔اس کانفرنس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس کے لیے میرے پیپر کا عنوان ہے:
Missionary Ethics
تفصیلی پروگرام کے مطابق اس کانفرنس میں مجھے ڈاکٹر راجندر ورما کے پیپر کا respondent بنایا گیا تھا۔ ڈاکٹر ورما آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اور آج کل دہلی میں رہتے ہیں۔ کل ان کا ٹیلی فون آیا۔ میں نے کہا کہ میرا ٹکٹ تو آ گیا ہے، مگر میرا ارادہ بنگلور جانے کا نہیں ہے۔ ڈاکٹر ورما نے کہا کہ آپ کوضرور چلنا چاہیے۔ اس کے بعد آج صبح 10 بجے وہ خود ہمارے دفتر (نظام الدین) میں آئے۔
اس سلسلہ میں بڑا عجیب واقعہ ہوا۔ کل جب ڈاکٹر ورما کا ٹیلی فون آیا تو میں بالکل نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر ورما کون ہیں۔ مگر ٹیلی فون کی مختصر گفتگو کے بعد میرا ذہن اچانک ایک شخص کی طرف چلا گیا جن سے میں سات مہینے پہلے ملا تھا۔
نیویارک جاتے ہوئے ممبئی ایئر پورٹ پر ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ یہ 14نومبر 1985 کا واقعہ ہے۔ یہ ملاقات بس ایئر پورٹ پر چلتے ہوئے ایک دو منٹ کی تھی۔ ان کے چہرے کا ایک عکس میرے ذہن میں تھا۔ٹیلی فون کی گفتگو کے بعد اچانک میرے دل نے کہا کہ یہ وہی شخص ہیں جن سے بمبئی ایئر پورٹ پر تھوڑی دیر کے لیے ملاقات ہوئی تھی۔ وجدانی طور پر میں نے ٹیلی فون کی آواز میں اور ایئر پورٹ پر دیکھے ہوئے چہرہ میں ایک مشابہت محسوس کی۔
آج صبح دس بجے جب وہ میرے دفتر میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ٹیلی فون پر بولنے والی آواز عین انہیں صاحب کی تھی جن کو میں نے سات ماہ پہلے بمبئی ایئر پورٹ پر دیکھا تھا۔
اللہ نے دماغ کو بھی کیسا عجیب کمپیوٹر بنایا ہے۔
20 جون 1986
جناب نسیم علی خاں صاحب سے آج دفتر میں ملاقات ہوئی۔ وہ بمبئی میں رہتے ہیں۔ ان سے میں نے بتایا کہ بمبئی کے ایک صاحب کا خط تقریباً چھ ماہ پہلے آیا تھا۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ انگریزی الرسالہ زبان و بیان کی خوبیوں سے یکسر محروم ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے انگریزی الرسالہ کی خریداری بھی بند کر دی۔
ان کو میں نے لکھا کہ آپ مثال کے ذریعہ اپنی بات کو واضح فرمائیں۔ یعنی انگریزی الرسالہ کا کوئی مطبوعہ پیراگراف لے کر نشان دہی کریں کہ اس میں زبان کی یا بیان کی کون سی خرابی ہے۔ مگر ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس دوران میں یاددہانی کے کئی خطوط لکھے گئے،مگر ابھی تک جواب سے محرومی ہے۔
نسیم علی خاں صاحب نے بتایا کہ میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اس خط و کتابت سے بھی واقف ہوں۔ قصہ یہ ہے کہ آپ کا خط ملنے کے بعد انہوں نے انگریزی الرسالہ کا ایک پرچہ آر ایس ایس کے بمبئی یونٹ کے سکریٹری کو دیا اور کہا کہ اس کو پڑھ کر اس پر بھرپور تنقید کریں۔آر ایس ایس کے سکریٹری نے پرچے کو پڑھا اور اس کے بعد اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا:
’’الرسالہ کی لینگویج فرسٹ کلاس ہے۔ اس کے آرٹیکل بھی بہت اچھے ہیں۔مجھے تو اس میں کوئی کمی نظر نہیں آئی جس پر میں کرٹیسائز کروں‘‘۔
مذکورہ سکریٹری(آر ایس ایس) بہت اچھے اور مانے ہوئے انگریزی داں ہیں۔ان کے اس تبصرے کے بعد اب ان کے پاس کہنے کی کوئی بات ہی نہیں رہی۔
میں نے نسیم علی خاں صاحب سے کہا کہ ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ اب آپ کا چپ ہونا سراسر بزدلی ہے۔آپ کو بہادری والا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ تحریری طور پر مذکورہ سکریٹری کا واقعہ لکھیں اور کھلے لفظوں میں اعتراف کریں کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔
پھر میں نے نسیم علی خاں صاحب سے کہا کہ بہادری (الحماسہ) انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔جس آدمی کے اندر بہادری ہوگی، اس کے اندر بقیہ صفتیں اپنے آپ ہوں گی اور جس شخص کے اندر بہادری نہیں ہوگی، اس کے بعد وہ تمام اعلیٰ اوصاف سے بھی محروم ہوگا۔
22 جون 1986
ابو ظبی (یو اے ای)سے ایک عربی ماہنامہ نکلتا ہے۔ اس کا نام ہے: المنار۔ اس کی اشاعت جنوری 1986 (ربیع الآخر 1406ھ) میں صفحہ 23 پر ایک مضمون ہے۔ اس مضمون میں اس کے عرب مضمون نگار نے لکھا ہے:المُسْلِمُونَ الَّذِينَ يُجِيدُونَ القَوْلَ وَلَا يُحْسِنُونَ العَمَلَ أَكْثَرُ ضَرَرًا عَلَى الإِسْلَامِ مِنْ أَعْدَائِهِ(جو مسلمان اچھی باتیں کرتے ہیں، مگر ان کا عمل اچھا نہیں ہے، وہ اسلام کے لیے اس سے بھی زیادہ مضر ہیں جتنا کہ اس کے دشمن)۔
مضمون نگار نے اپنے مضمون میں درج ذیل حدیث نقل کی ہے:إِنّ اللهَ تَعَالى يُحِبّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلاً أَنْ يُتْقِنَهُ(مسند ابی یعلیٰ،حدیث نمبر 4386)۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس کو پسند فرماتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب ایک کام کرے تو وہ اس کو بہترین طور پر کرے۔
جب اللہ کی پسند یہ ہے کہ آدمی اپنے کام میں اپنی اعلیٰ ترین صلاحیت استعمال کرے اور وہ اس کو بہتر سے بہتر انجام دے تو اللہ اس کو کیسے پسند کر سکتا ہے کہ آدمی کے قول و فعل میں مطابقت نہ ہو۔ وہ کہنے کے لیے اچھی اچھی باتیں کہے، مگر جب کرنا ہو تو نہ کرے۔
عمل میں قول کی مطابقت پہلا درجہ ہے اور عمل میں خوبی اس کے آگے کا درجہ۔ جب اللہ کو یہ گوارا نہیں کہ آدمی اچھا عمل کرنے میں کوتاہی کرے تو اللہ کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے قول اور اپنے عمل میں مطابقت نہ کرے۔