انسان کا مزاج

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَا يَسْأَمُ الْإِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ (41:49)۔ یعنی،انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا، اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ مایوس اور دل شکستہ ہوجاتا ہے۔

 انسان کی ایک صفت عدم اطمینان (discontent) ہے۔ یہ صفت فطری طور پر ہر انسان کے اندر ہوتی ہے۔ یہ اصلاً ایک مثبت صفت ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ آدمی ہمیشہ کوشش کرتا رہے۔ وہ زندگی میں کبھی کوشش کے عمل کو نہ چھوڑے۔

لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے مطلوب کو اپنے نشانے سے کم پاتا ہے۔ یہ واقعہ انسان کو مایوسی میں مبتلا کردیتا ہے۔ اگر آدمی یہ کرے کہ وہ ملے ہوئے کا اعتراف کرے، اور نہ ملے ہوئے کے لیے ری پلاننگ کرتا رہے، تو اس کے اندر شکر کا جذبہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ وہ مایوسی میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو ضائع کرنے سے بچ جائے گا، ناممکن کی تلاش میں وہ ممکن سے محروم نہیں رہے گا۔

آدمی کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی وہ اپنے مقرر نشانے کو نہ پائے، وہ محسوس کرے کہ اس کا مطلوب اس کو حاصل نہیں ہوا تو وہ منفی سوچ کا شکار ہونےکے بجائے ری تھنکنگ (rethinking) کا طریقہ اختیار کرے، وہ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لے۔ وہ دریافت کرے کہ انسان کے لیے اللہ کا منصوبہ تخلیق کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس غور و فکر میں وہ اپنی زندگی کی کچھ گم شدہ کڑی (missing link) کو دریافت کرلے، جس سے بے خبر ہونے کی بنا پر وہ مایوسی کا شکار ہوگیا تھا۔

یہی وہ حقیقت ہے، جس کو صلح حدیبیہ کے حوالے سے ایک تابعی نے ان الفاظ میں نقل کیا:فَمَا فُتِحَ ‌فِي ‌الْإِسْلَامِ ‌فَتْحٌ قَبْلَهُ كَانَ أَعْظَمَ مِنْهُ(سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ322)۔ یعنی اسلام میں اس سےپہلے جو فتح حاصل ہوئی، ان میں سے کوئی فتح اتنی عظیم نہیں ہے— انسان کی ہر منفی سوچ مواقع سےبے خبری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آپ اپنی بے خبری کو توڑیے، اور آپ کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوں گے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom