گفتگو کا انداز
حضرت عائشہ کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا، وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ يُبَيِّنُهُ، فَصْلٌ، يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْه(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3639)۔ یعنی عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم تمھاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے۔ بلکہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے ، بالکل صاف صاف ، جو آپ کے پاس بیٹھا ہو ، وہ یاد کرلے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ا نسان کی گفتگو صاف، واضح اور ہرشخص کے لیے قابل فہم ہونی چاہیے۔گفتگو کا دو طریقہ ہے۔ ایک وہ ہے، جس کو کہتے ہیں فر فر بولنا۔ اور دوسرا وہ ہے، جس کو کہتے ہیں رک رک کر بولنا۔ فر فر بولنا غلط عادت ہے۔ ایسے لوگوں کو خود بھی یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے کیا کہا، اور نہ سننے والوں کو ان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس کے برعکس، گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی ٹھہر ٹھہر کر بولے۔ اس طرح سننے والااس کی بات کو پکڑے گا۔ اور پھر جواب میں جو کچھ کہے گا، وہ بھی سوچی سمجھی بات ہوگی۔
جلدی جلدی بولنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جس آدمی کو تیز تیز بولنے کی عادت ہو، وہ نہ اپنی بات کو صحیح طور پر کہہ پائے گا، اور نہ سننے والا اس کی بات کو صحیح طور پر سن سکے گا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ جو بولے وہ سوچ سمجھ کر بولے تاکہ سننے والا اس کو پوری طرح سمجھے، اور اگر اس کی بات جواب طلب بات ہے تو اس کا صحیح انداز میں جواب دے۔
جو آدمی رک رک کر بولے، وہ سوچ سمجھ کر بولے گا۔ اور جو فر فر بولنے کا عادی ہو، وہ بولے گا، لیکن وہ خود بھی اپنی بات کو سمجھ نہیں پائےگا، اور نہ سننے والا سمجھے گا کہ اس کو سامنے والے نے کیا کہا۔ مزید یہ کہ بولنے کا انداز آدمی کی شخصیت کا تعارف ہے۔ ایک طریقہ سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ آدمی سنجیدہ شخصیت کا حامل ہے، اور دوسرا طریقہ آدمی کی شخصیت کا برعکس تعارف پیش کرتاہے۔