نیا سال: امید و احتساب
ہر غروب کے لیے ایک نیا طلوع مقدر ہے
سورج پچھم میں غروب ہوتا ہے تاکہ دوبارہ پورب سے نئی شان کے ساتھ طلوع ہو۔ یہ ایک روشن نشانی ہے جو آسمان پر ظاہر ہو کر ہر روز ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے اپنی مملکت کا نظام کس طرح بنایا ہے۔ یہ اس حقیقت کا ایک کائناتی اعلان ہے کہ خدا کی اس دنیا میں کوئی ’’غروب‘‘ آخری نہیں۔ ہر غروب کے لیے ایک نیا طلوع مقدر ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر امید اورحوصلہ باقی ہو۔ غروب کا واقعہ پیش آنے کے بعد وہ مثبت سوچ کے ساتھ از سرِنو اپنی جد و جہد کا منصوبہ بنائے، اور زندگی کی شاہ راہ پر دوبارہ اپنا سفر شروع کر دے ۔
احتساب
19جنوری 1989میں کشمیر کے دو صاحبان ملاقات کے لیے آئے۔ ان سے گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے جن لوگوں کو اپنا لیڈر بنایا، وہ سب کے سب مقرر تھے، ان میں کوئی بھی شخص مدبر نہ تھا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان ہر طرف ناکام اور برباد نظر آتے ہیں۔ قوموں کی رہنمائی کے لیے مدبر شخص چاہیے، مقرر شخص کبھی قوم کی رہنمائی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم قیادت موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ نا کام قیادت ثابت ہوئی ہے۔
اس کی وجہ اس کی یہ غلطی ہے کہ اس نے مسلمانوں کے مستقبل کو تعمیرکے میدان میں تلاش کرنے کے بجائے سیاست کے میدان میں تلاش کیا۔ سیاست بازی کا مطلب ہے، اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسروں کے خلاف مہم چلانا ۔ جب کہ تعمیر یہ ہے کہ اپنے مسائل کے لیے خود اپنے اوپر عمل کیا جائے۔
کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ قوم کو اس حیثیت سے تیار کیا جائے کہ لوگ ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے مضبوط ہوں، وہ تعلیمی اعتبار سے آگے ہوں، ان میں باہم اتحاد ہو، اقتصادی شعبوں میں انھوں نے اپنی جگہ بنائی ہو۔ سماجی بہبود کے ادارے ان کے درمیان چل رہے ہوں ۔ وہ زمانے کو پہچانیں اور اس کے مطابق کام کرنا جانتے ہوں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اندر یہ شعور ابھارا جائے کہ وہ اعلیٰ سوچ والے انسان بنیں۔ انھیں چیزوں کے اوپر کسی قوم کی ترقی کا دارو مدار ہے۔ لیکن مسلمانوں نے دوسروں کے خلاف سیاسی ہنگامہ آرائی تو خوب کی، خود اپنی تعمیر کے لیے کوئی کام نہ کیا۔
مزید نادانی یہ ہے کہ سیاست بازی سے جب وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اب انھوں نے دوسرا مشغلہ یہ اختیار کیا ہے کہ اپنی ناکامی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کی باتوں سےوہ، قرآن کے مطابق، صرف یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ انھوں نے کلمہ طیبہ کا درخت نہیں اگایا تھا، بلکہ کلمہ خبیثہ کا درخت اگایا تھا۔ کیونکہ کلمہ طیبہ کے درخت کے لیے خدا کا اعلان ہے کہ کوئی اس کو اکھاڑ نہیں سکتا :أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ(14:24)۔ یعنی، کلمہ طیبہ کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس،اللہ تعالی کے قانونِ فطرت کے مطابق، یہ انجام صرف کلمہ خبیثہ کے درخت کے لیے مقدر ہے کہ جو چاہے ہاتھ بڑھا کر اس کو اکھاڑ لے۔ قرآن کے الفاظ میں،کلمہ خبیثہ کی مثال ایک خراب درخت کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے۔ اس کو کوئی ثبات نہیں: اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَها مِنْ قَرَار(14:26)۔
صورِ آخرت
یکم جنوری 2002 کو میں بمبئی (موجودہ ممبئی) میں تھا۔ میں ہارون شیخ صاحب کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ 12 بج کر ایک منٹ پر گولا داغنے کی آواز آئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ نیا سال شروع ہوگیا ہے — اسی طرح ایک وقت آئے گا جب کہ صور پھونکا جائے گا۔ صور کی آواز اس بات کا اعلان ہوگی کہ انسان کے لیے ایک دورِ حیات ختم ہوگیا اور اب اس کی زندگی کا اگلا دورِ حیات شروع ہوا ہے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔