دو قسم کے انسان
انسانوں میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ انسان جو بہت بولتا ہے، لیکن کام میں وہ پیچھے ہوتا ہے۔ اور دوسرا انسان وہ ہے، جو بقدرِ ضرورت بولتا ہے۔ ورنہ چپ رہتا ہے۔ پہلا انسان وہ ہے، جو بولتا زیادہ ہے، لیکن سوچتا کم ہے۔ اور دوسرا انسان وہ ہے، جو سوچتا زیادہ ہے، اور بات کرتا ہے تو سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ پہلے قسم کے انسان کا دوسرا نام ہے غیر سنجیدہ انسان، اور دوسرےقسم کے انسان کا نام ہے سنجیدہ انسان ۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ جو انسان زیادہ بولے گا، وہ کرنے کے معاملے میں کم ہوگا۔ اس کے برعکس، جو آدمی کم بولے گا، وہ کرنے کے معاملے میں زیادہ ہوگا۔ عقل مندآدمی وہ ہے، جو کسی کے بولنے کو نہ دیکھے۔ بلکہ وہ یہ دیکھے کہ کوئی آدمی کرنے کے وقت کیسا کام کرتا ہے۔ قرآن میں دو آیتیں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (61:2-3)۔ یعنی اے ایمان والو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بات بہت ناراضگی کی ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرو نہیں۔
مفسر ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں پر تنقید ہے، جو کہتے ہیں، لیکن کرتے نہیں، وعدہ کرتے ہیں، لیکن اس کو پورا نہیں کرتے(إِنْكَارٌ عَلَى مَنْ يَعد عدَةً، أَوْ يَقُولُ قَوْلًا لَا يَفِي بِهِ)۔ بعض علما نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے ، خواہ جس سے وعدہ کیا ہے وہ اس کی تاکید کرے یا نہ کرے(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ105)۔
حقیقی انسان وہ ہے، جس کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہو، حتی کہ اس وقت بھی جب کہ آدمی کو اپنے کہنے کی قیمت دینی پڑے ۔جب ایک انسان کے اندر یہ صفت پیدا ہوجائے تو وہ بولنے سے پہلے بہت زیادہ سوچے گا۔وہ کوئی ایسی بات بولنے سے بچے گا، جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ ایمان والے کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کرے یا چپ رہے(فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُت) صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018 ۔