یہود کا ذکر قرآن میں
یہود کا ذکر قرآن میں اصلاً خود یہود کے لیے نہیں ہے۔ قرآن میں یہود کا ذکر بطور مثال ہے۔ یہود کی مثال سے امت محمدی کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اس روش سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ اس حقیقت کا اشارہ قرآن کی اس آ ٓیت میں ملتا ہے:
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (57:16)۔ یعنی کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
یہ کسی امت کے دورِ زوال کی بات ہے، جو طولِ امد یعنی لمبا عرصہ گزرنے کے بعد فطرت کے قانون کے مطابق لازماًپیدا ہوتا ہے۔یعنی یہ ظاہرہ بعد کی نسلوں میں پیش آتا ہے، نہ کہ ابتدائی نسلوں میں۔ بعدکے دور میں یہ ہوتا ہے کہ امت کی ابتدائی نسل ختم ہوکر نئی نسل آجاتی ہےجن میں عمومی سطح پر ایمان شعوری دریافت کے بجائے ایک قومی کلچربن جاتا ہے۔ ان میں آخرت کا زندہ احساس باقی نہیں رہتا۔ خشیّتِ الٰہی کے بجائے’’اللہ کی منتخب قوم‘‘ کا خود ساختہ تصور پیدا ہوجاتا ہے، وغیرہ۔
اس دورِ زوال کا تعلق صرف یہود سے نہیں ہے، بلکہ ہر اس گروہ سے ہے، جس پر طولِ امد کا تجربہ پیش آجائے۔ یعنی وہ چیز جس کو نفسیات کی اصطلاح میں ڈی جنریشن کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی گرو ہ لمبی مدت پیش آنے کے بعد ڈی جنریشن کا شکار ہونے سے بچ نہیں سکتا۔ اس عمل سے کلی طو ر پر بچنا شاید ممکن نہ ہو۔ البتہ تعلیم و تربیت کے ذریعے اس کے اثر کو کم کیا جاسکتا ہے۔موجودہ زمانے کے یہود میں جزئی طور پر یہ واقعہ پیش آیا ہے، اگر چہ وہ زیادہ تر سیکولر معنی میں ہے۔ قرآن امتِ یہود اور امتِ نصاریٰ کی مثال دے کر امت مسلمہ کو یہ رہنمائی دے رهاہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قسم کی زوال یافتہ روش سے دور رکھیں۔