بيانيه انداز
مسلم اهل علم كي تحريروں ميں عام طور پر بيانيه اسلوب كا رواج هے۔ بیانیہ اسلوب یہ ہے کہ آدمی ایسی بات کہے جو اس کے اپنے ذہن کی بات ہو، لیکن اس کے ذہن کے باہر اس کاکوئی واقعاتی مصداق موجود نہ ہو۔يعني دليل اور شواهد كو بتائے بغير کوئی بات كهنا۔ مثلاً يه كهنا كه مسلمان موجوده زمانه ميں هر جگه محصور حالت (under siege) ميں زندگي گزار رهے هيں۔
اس صورت حال پرمیں نے غور كیا تو مجھے سمجھ میں آیا كه يه قديم شاعرانه اسلوب كا تسلسل (extension) هے۔ قديم زمانے ميں ساري دنيا ميں شاعرانه اسلوب كا رواج تھا۔ موجوده زمانے ميں جب سائنسی طریقہ رائج ہوا تو اس اسلوب كا خاتمه هوگيا۔ اس بنا پر آج كي دنيا ميں شعر (poetry) كے بجائے نثر (prose) كي اهميت هوگئي۔اس حقيقت كو پهلي بار ميں اس وقت سمجھا جب كه ميں نے مندرجه ذيل كتاب پڑھي جو كه 1965 ميں شائع هوئي:
The Great Intellectual Revolution
یہ کتاب جان فریڈرک ویسٹ نے لکھی ہے۔اس كتاب كا ايك باب يه تھا:
The Death of Metaphor
یعنی تمثيلي اسلوب كا خاتمه۔(اس کا ترجمہ الرسالہ ،اكتوبر،1985 اور دسمبر، 2019 میں اس عنوان کے تحت چھپ چکا ہے: ادبی انقلاب)۔ اس ميں ولیم شیکسپیئر (1564-1616ء) اورجان ملٹن (1608-1674ء) ، وغیرہ كامطالعہ كركے اس معامله كو واضح كيا گيا هے۔ مغربي ملكوں ميں ایگزیکٹ سائنس (exact sciences) كے رواج كي بنا پر سائنٹفک اسلوب پر مبنی یہ تحريري كلچر طرح رائج هوچکا ہے۔سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے، یعنی دلائل و شواہد کی بنیاد پر دیا گیا بیان۔اس کے برعکس، مسلم سماج میں سائنٹفک ذہن نہ ہونے کی وجہ سے بیانیہ اسلوب ابھي تك كسي نه كسي شكل ميں قائم هے۔ بیانیہ اسلوب کا مطلب ہے دلائل و شواہد سے خالی مفروضہ بیان۔ یعنی آدمی ایسی بات کہے جو مدلل (well-grounded) نہ ہو، بلکہ خیالی بات ہو، جس کا حقیقی مصداق اس کے ذہن کے باہر موجود نہ ہو۔